’’مفردات القرآن‘‘ میں ان الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے: ’’ الشقاق المخالفۃ وکونک في شق غیر شق صاحبک ‘‘- ’’شقاق کے معنی مخالفت کے ہیں، یعنی تم ایک طرف ہو، تو تمہارا ساتھی دوسرے کنارہ۔‘‘ (مفردات القرآن اردو:ص/۵۴۶)(۱۳)
علامہ عبد الماجد دریابادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’شقاق سے مراد ’’ ایسی کشمکش جسے وہ (میاں بیوی)باہم نہ سلجھا سکیں۔‘‘
(تفسیر ماجدی:ص/۱۹۱، حاشیہ نمبر:۵۳۹)
سوال:۵- کیا قاضی شقاق کی وجہ سے خلع کا فیصلہ کرسکتا ہے، اس سلسلے میں حنفیہ اور دوسرے فقہاء کا کیا نقطۂ نظر ہے؟
جواب:۵- قاضی شقاق کی وجہ سے خلع کا فیصلہ نہیں کرسکتا، جیسا کہ صاحب ’’ احکام القرآن ‘‘ ابوبکر الجصاص رحمہ اللہ، قرآنِ کریم کی آیت : {وإن خفتم شقاق بینہما فابعثوا حکمًا من أہلہ وحکمًا من أہلہا} کے تحت تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ کتاب اللہ ، سنتِ رسول اللہ اور اجماعِ امت سے یہ بات ثابت ہے کہ حاکمِ وقت عورت سے مال لے کر ،اس کے شوہر کو دینے،اور مرد کی توکیل ورضا کے بغیر اس کی بیوی پر ایقاعِ طلاق کا اختیار نہیں رکھتا‘‘(۱۴)، کیوں کہ اگر حاکم کویہ اختیار ہوتا، تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیوی سے’’ أتردّین علیہ حدیقتہ؟ ‘‘ سے استفہام اور شوہر کو ’’ طلِّقہا ‘‘یا ’’ خلِّ سبیلہا ‘‘ نہ فرماتے، بلکہ خود نکاح فسخ فرمادیتے(۱۵)،البتہ جب مالکیہ کے نزدیک تحکّمِ شقاق کی بنا پر حکمین کو بدونِ توکیل تفریق بین الزوجین کا اختیار ہے ، اور حکمین اپنی مصلحت کے مطابق جمع وتفریق کا فیصلہ کرسکتے ہیں(۱۶)، درآں حالانکہ حکمین یہ حاکم ہی کے نائب ہوتے