ہوگیا، تو ڈاکٹر یاطبیب کو ضامن قرار دینے یا نہ دینے کا سوال بھی کھڑا ہوتا ہے، اس طرح کے مختلف مسائل میں اسلامی شریعت کی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے درج ذیل سوالات قائم کیے جارہے ہیں، امید ہے کہ کتاب وسنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ان سوالات کے جوابات تحریر کیے جائیں گے:
محورِ اول
سوال: ۱- ایسا کوئی شخص جو قانونا کسی مرض کا علاج کرنے کا مجاز نہیں ہے، لیکن اپنے ذاتی مطالعہ اور تجربہ کی بنا پر دواؤں اور امراض کے بارے میں واقفیت رکھتا ہے، اگر اس شخص نے کسی مریض کے کہنے پر اس کا علاج کیا، تو شرعاً اس کا یہ علاج کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر اس کے علاج سے مریض کو غیر معمولی ضرر پہنچا، یا اس کا انتقال ہوگیا،تو اس پر کوئی ضمان یا تاوان لازم ہوگا یا نہیں؟ کیا اس کا عمل شرعاً قابلِ تعزیر جرم شمار ہوگا؟
جواب: ۱- امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خلق کے بارے میں، شریعت کے مقاصد پانچ ہیں، اور وہ یہ ہیں، کہ اس کے دین، اس کی جان، اس کی عقل، اس کی نسل اور اس کے مال کی حفاظت کی جائے، بس ہر وہ بات، جو ان اصولِ خمسہ کی ضامن ہو، وہ مصلحت قرار پائے گی، اور ہر وہ چیز جو ان پانچوں امور کی حفاظت میں مخل ہو، وہ مفسدہ قرار پائے گی، اور اس کا اِزالہ مصلحت ہوگا۔
حضرت علامہ کی اس عبارت سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ایسے آدمی کو علاج کی اجازت دینا، جو محض ذاتی مطالعہ و تجربہ کی بنا پر دوا، اور امراض کے بارے میں واقفیت رکھتا ہے، جائز نہیں، ورنہ انسانی نفوس کی سا لمیت و حفاظت کو ایک زبردست خطرے کا سامنا ہوگا، جو شریعت کے مقاصد میں سے اہم ترین مقصد ہے۔نیز ہر کس وناکس کو