کو دو چیزوں میں ایک کا اختیار ہے: اول یہ کہ حکمین شوہر کو بیوی کے معاملہ میں امین بنائے، یعنی دونوں حکم شوہر کو بیوی کے ساتھ انصاف کرنے اور حسنِ معاشرت میں امین بنائیں گے۔ دوم یہ کہ عورت کی طرف سے معاوضہ لے کر دونوں کے درمیان تفریق کردیں ، اور جائز ہے کہ یہ معاوضہ عورت کے مہر سے جس کو اس نے اپنے شوہر سے لیا ہے کم ہو، اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ اس کے مہر کے برابر یا اس سے زیادہ ہو۔
اور اگر حکمین یہ محسوس کریں کہ زوجین میں سے ہر ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کرتا ہے، تو پھر اگر یہ ممکن ہو کہ وہ جان سکیں کہ کس کی طرف سے زیادتی زیادہ ہے ، تو جس کی طرف سے زیادتی زیادہ ہوگی، وہی تنہا زیادتی کرنے والا سمجھا جائے گا۔
اور اگر حکمین کے لیے یہ جاننا ممکن نہ ہو، کہ ان دونوں میں سے کس کی زیادتی زیادہ ہے ، یا یہ معلوم ہو کہ ہر ایک کی زیادتی دوسرے کے حق میں برابر ہے، تو مذہب میں دو رائیں ہیں: اول یہ کہ حکمین کی ذمہ داری ہے کہ زوجہ کو بلا معاوضہ طلاق دے دیں، دوسری یہ کہ ان دونوں کی ذمہ داری ہے کہ معاوضہ لے کر طلاق دیں۔اسی دوسری رائے کے مطابق اکثر علماء کا عمل ہے‘‘۔(۱۲)(ماخوذ از:کتاب الفسخ والتفریق:ص/۱۴۹،۱۵۰،۱۵۱)
سوال:۴- ’’شقاق‘‘ سے کیا مراد ہے؟
جواب:۴- ’’شقاق‘‘ کے معنی عداوت، دشمنی ، مخالفت کے ہیں، اور چوں کہ یہ باب مفاعلۃ کا مصدر ہے، اس لیے اس کے معنی ہیں ’’باہم شقاق میں اس حالت پر ہوجانا کہ ایک شخص ایک شق پر ہو، یعنی ایک سرے پر ہو، اور دوسرا شخص دوسری شق پر ہو، یعنی دوسرے سرے پر ہو‘‘۔ یعنی دو آدمیوں کے درمیان شقاق(عداوت، دشمنی، مخالفت) نے انتہائی صورت اختیار کرلی ہو، اسی کو امام راغب نے اپنی کتاب