وثبوت سے یہ ظن غالب ہوجائے، کہ عورت اپنے دعوی میں سچی ہے، تو امام مالک رحمہ اللہ کے مسلک پر ان کی تصریحات کے مطابق فیصلہ دے۔
(ماخوذ از:کتاب الفسخ والتفریق:ص/۱۴۸،مکتبہ امارتِ شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ)
ان کی تصریحات اس بارے میں یہ ہیں: ’’مالکیہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو مارپیٹ کرکے، یا مثلاً کسی ناجائز کام کے کرنے پر مجبور کرکے ضرر پہنچائے،تو عورت کو حق ہے کہ اپنا معاملہ قاضی کے پاس لے جائے، اور اس کو حق ہے کہ قاضی سے شوہر کی تادیب اور زجر کا مطالبہ کرے، تاکہ وہ عورت کو تکلیف پہنچانے سے باز رہے، اسی طرح اس کو یہ بھی حق ہے کہ شوہر کی طرف سے طلاق دیئے جانے کا مطالبہ کرے، تو اگر عورت قاضی سے مطالبہ کرے کہ اس کے شوہر کو ایذا رسانی سے روکا جائے، تو قاضی اولاً شوہر کو سمجھائے، اس کو یہ بتائے کہ شوہر پر اپنی بیوی کے ساتھ بہترین معاشرت واجب ہے، اور اس کو بتائے کہ عورت کے ساتھ بدسلوکی کے نتیجے میں دونوں کے درمیان علیحدگی ہوسکتی ہے، جس کے نتیجہ میں بچہ ضائع ہوجائے گا اگر ہو، پھر اگر وعظ و نصیحت سے فائدہ ہوجائے تو ٹھیک ہے، لیکن اگر عورت دوبارہ قاضی کے پاس آئے اور اس کو بتائے کہ شوہر اپنی مارپیٹ سے باز نہیں آیا ہے، اور معاملہ واضح نہ ہو، تو قاضی دو حکم بھیجے گا، ان دونوں پر واجب ہوگا کہ زوجین کے درمیان اصلاحِ حال اور آپس میں محبت اور حسنِ معاشرت پر دونوں کو آمادہ کرنے کی کوشش کریں، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ تحقیق کریں کہ زوجین میں سے کس کی طرف سے دوسرے کے حق میں زیادتی ہوتی ہے، اگر زیادتی شوہر کی طرف سے ہو، تو دونوں حکم شوہر کی طرف سے زوجہ کو بلا معاوضہ طلاق دے دیں گے، اور اگر زیادتی بیوی کی طرف سے ہو، تو حکمین