عنہ،طاؤس،عکرمہ،امام احمد بن حنبل، اسحق بن راہویہ، ابو ثور اور داؤد ظاہری رحمہم اللہ کا کہنا یہ ہے کہ ’’خلع‘‘ فسخ نکاح ہے، اور اس پر طلاق کے احکام جاری نہیں ہوں گے،امام شافعی رحمہ اللہ کا قدیم مذہب بھی یہی تھا، لیکن پھر انہوں نے پہلے مذہب کو اختیار کرلیا تھا۔ (فقہی مقالات:۲/۱۴۲،۱۴۳)(۸)
اسی طرح آیت کریمہ :{وللرجال علیہنّ درجۃ} سے پتہ چلتا ہے کہ بعض معاملات میں جو اختیارات مرد کو حاصل ہیں وہ عورت کو حاصل نہیں ہیں(۹)، اسی لیے مردکو بغیر معاوضہ دیئے طلاق دینے کا اختیار حاصل ہے، جب کہ عورت معاوضہ ادا کیے بغیر طلاق حاصل نہیں کرسکتی،علامہ ابن رشد مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’بہر حال خلع تو جمہور اس بات پر متفق ہیں کہ وہ طلاق ہی ہے‘‘ ۔(۱۰)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی ہے:
’’ طلاق کا مالک وہی شخص ہے جسے حقِ جماع حاصل ہے‘‘۔(۱۱)
خلاصۂ کلام یہ کہ جس طرح طلاق دینے کا حق مرد کو حاصل ہے،اسی طرح خلع بھی اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ شوہر راضی نہ ہو۔
سوال:۳- اگر عورت کے پاس شوہر کی ظلم وزیادتی کے سلسلے میں بیّنہ فراہم نہ ہوں، تو اس کے گلو خلاصی کی کیا صورت ہوگی؟
جواب:۳- اگر عورت شوہر کی جانب سے شدید حد تک متنفر ہو؛ لیکن شوہر طلاق دینے پر تیار نہ ہو، اور عورت کے پاس شوہر کی ظلم وزیادتی کے سلسلے میں بینہ فراہم نہ ہوں، تو اس کی گلو خلاصی کی صورت یہ ہوگی کہ حنفی قاضی کو جب تحقیقِ حال کے بعد شواہد