مقابلہ میں مال لینا، یالفظِ خلع کے ذریعہ ملکِ نکاح کوختم کردینا ‘‘خلع ہے۔(۴)
خلع کی مذکورہ بالا تعریفات سے اتنی بات واضح ہوجاتی ہے کہ:
’’ عورت سے کچھ لے کر اس کو نکاح سے آزاد کردینے کا نام خلع ہے‘‘۔(۵)
سوال:۲- بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جیسے مرد کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے، اسی طرح عورت کو خلع لینے کا حق حاصل ہے، یہ بات کس حدتک درست ہے؟
جواب:۲- بعض لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ جیسے مرد کوطلاق دینے کاحق حاصل ہے ، اسی طرح عورت عام حالات میں بھی ہر وقت خلع کا حق رکھتی ہے ، مرد چاہے یا نہ چاہے ، تویہ بات درست نہیں ہے۔ہاں ! جب تخالفِ طبائع یا مزاجوں کی عدمِ ہم آہنگی یا کسی اور وجہ سے زوجین میں نباہ دشوار ہوجائے اور شوہر طلاق پر آمادہ نہ ہو ، تو شرعاً عورت کے لیے خلع لینا جائز ہے،بشرطیکہ تعدی ونشوز عورت کی جانب سے نہ ہو(۶) ،کیوں کہ خلع باجماعِ امت زوجین کا ایک ایسا معاملہ ہے، جوزوجین کی باہمی رضامندی پر موقوف ہوتا ہے۔(۷)--البتہ حیثیتِ خلع میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم وفقہائے مجتہدین کا اختلاف ہے کہ خلع کی حیثیت طلاق کی ہے یا فسخ کی؟ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت سعید ابن مسیب ، حسن بصری، عطاء، قاضی شریح ، شعبی، ابراہیم نخعی، جابر ابن زید، امام مالک، امام ابوحنیفہ، سفیان ثوری، امام اوزاعی رحمہم اللہ، اور صحیح قول کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ’’ خلع‘‘ طلاق ہے۔
لیکن حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ