ممالک میں سیر وتفریح اور سیاحتی مقامات بن چکے ہیں۔
[الف]: تفریحی مقصد کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر، اور ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرنا بلاضرورتِ داعیہ وبلا غرضِ صحیح جائز نہیں ہے، جب کہ اس میں کثیر رقوم کا صرفہ ہوتا ہو ، کیوں کہ شریعتِ اسلامیہ نے ہمیں اضاعتِ مال سے منع فرمایا ہے،بلکہ قرآن مجید میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے،یعنی ناشکری اور کفرانِ نعمت میں شیطان کے مشابہ وہم سطح ہوتے ہیں۔ اور انسان کی مذمت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے شیطان سے تشبیہ دے دی جائے، جو ساری برائیوں کا سرچشمہ ہے۔ (کشاف، بحوالہ تفسیر ماجدی، تحت الآیۃ-۲۷، سورۃ الإسراء)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اور مال کو فضولیات میں نہ اڑا ، بیشک فضولیات میں اڑا دینے والے شیطانوں کے بھائی بند ہوتے ہیں۔‘‘(۲۹)
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حرام وناجائز کام میں تو ایک درہم خرچ کرنا بھی ’’تبذیر‘‘ ہے۔ اور جائز ومباح خواہشات میں حد سے زیادہ خرچ کرنا جس سے آئندہ محتاج وفقیر ہوجانے کا خطرہ ہوجائے، یہ بھی تبذیر میں داخل ہے۔ ہاں! اگر کوئی شخص اصل پونجی کو محفوظ رکھتے ہوئے، اس کے منافع کو اپنی جائز خواہشات میں وسعت کے ساتھ خرچ کرتا ہے، تو وہ تبذیر میں داخل نہیں۔
(قاموس الفقہ:۳/۴۱۱، معارف القرآن:۵/۴۷۰، تفسیر قرطبی:۱۰/۲۴۸)
[ب]: شق (الف) میں مذکور تفصیل سے شق (ب) کا جواب بھی معلوم ہوجاتا ہے، کہ جن ملکوں یا شہروں کی طرف سفر کرنا درست ہے ، اگر وہ علاقے جان ومال ، عزت وآبرو کے تحفظ کے اعتبارسے پُر اعتماد ہیں ، تو ان کی طرف خود بھی سفر کرنا اور