عبادت کرنا ہوتا ہے، کیا اس طرح کی ٹور کمپنیاں قائم کرنا جائز ہے؟
جواب:۳- تفریحی مقصد کے لیے آدمی جس شہر یا ملک کا سفر اختیار کررہا ہے ، وہ دو حال سے خالی نہیں ، وہ شہر یا ملک کافر ہوگا یا اسلامی۔ اگر وہ کافر ملک ہے تو بغرضِ سیاحت وتفریح اس کا سفر اختیار کرنا درست نہیں ہے، اور اگر اسلامی ملک ہے تو وہ بھی دو حال سے خالی نہیں۔ وہ اسلامی ملک یا تو منکرات وفواحشات اور برائیوں کا اڈہ ہوگا یا نہیں۔ اگر وہاں پر منکرات وفواحش اور جرائم کا ارتکاب ہوتا ہے ، تو اس کا سفر اختیار کرنا درست نہیں ہے، ورنہ مباح ہے، بشرطیکہ کثیر رقوم کا صرفہ نہ ہوتا ہو، کیوں کہ اضاعتِ مال سے اسلام نے ہمیں منع کیا ہے۔ لیکن ضرورتِ داعیہ اور غرضِ صحیح (مثلاً حصولِ علم وفن ، تجارت اور علاج وغیرہ) کی بنا پر بلادِ کفر اور ایسے اسلامی شہر وممالک (جہاں منکرات وفواحش ہوں)کا سفر کرنا، مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ درست ہے:
(۱)شعائرِ اسلام کی حفاظت ہو۔ (۲)اقامتِ دین بلادِ کفر میں ممکن ہو۔ (۳)بقدرِ ضرورت ہی بلادِ کفر میں مقیم رہے، بعد از انقضائے حاجت وضرورت اپنے ملک یا شہر واپس لوٹ جائے۔(۴)انسان کے پاس اتنا علم ہو جس کے ذریعہ وہ (دین کے متعلق) شکوک وشبہات کو دور کرے۔(۵)انسان کے پاس اتنا دین ہو جو اس کوشہوات سے روکے۔ (۶)سفر کی سخت ضرورت پیش آئی ہو۔
جن اعذار کی بنا پر سفر کی ضرورت پیش آئے وہ یہ ہیں: مثلاً: علاج ، جب کہ وہ اس کے ملک یا شہر میں نہ ہوسکتا ہو۔تحصیلِ علم و فن جب کہ وہ اس ملک میں مہیا اور دستیاب نہ ہو۔
۷- اگر سیاحت کا مقصد تفکر فی خلق اللہ ہے، تو ان اسلامی ممالک کا سفر اختیار کیا جائے، جہاں پر منکرات وفواحش کا ارتکاب نہ ہوتا ہو، کیوں کہ بہت سے اسلامی