شرکت کرنے والوں کے علاوہ کوئی تیسرا شخص ہو، مثلاً: امام ، جب کہ خود اس کا گھڑ سوار اس کھیل میں شریک نہ ہو، اور جمہور نے جائز قرارد یا ہے کہ اگر کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کی طرف سے شرط ہو، تو درست وجائز ہے، اسی طرح کسی ثالث یعنی تھرڈ پارٹی کی طرف سے بھی درست ہے، بشرطیکہ اس کا کوئی کھلاڑی اس کھیل میں شریک نہ ہو، ورنہ پھر یہ صورت قمار کی ہوجائے گی۔‘‘(۲۵)
[ھ]: اگر کھیل اپنے طریقہ اور لباس کے اعتبار سے محرمات پر مشتمل نہ ہو، لیکن اس میں کھیلنے والوں اور کھیل دیکھنے والوں کا کافی وقت ضائع ہوتا ہو، تو وہ کھیل ناجائز ومکروہِ تحریمی ہے، کیوں کہ شریعتِ اسلامیہ اپنے ماننے والوں کو اس طرح کا کھیل کھیلنے سے منع کرتی ہے، ’’احکام القرآن للتھانوی ‘‘میں کھیلوں کے سلسلے میں جو ضابطہ منقول ہے، وہ یوں ہے: ’’ہر ایسا کھیل جو انسان کو اس پر واجب حقوق (خواہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد) سے غافل کردے، یا منکرات ومنہیاتِ شرعیہ پر مشتمل ہو، یا اس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوں، ناجائز ومکروہِ تحریمی ہے، اور شریعتِ اسلامیہ اپنے ماننے والوں کو اس طرح کا کھیل کھیلنے سے منع کرتی ہے۔‘‘ (۳/۲۰۱)
نیز جس طرح مال کے سلسلے میں اِسراف وفضول خرچی حرام ہے ، ایسے ہی تضییعِ اوقات بھی شرعاً حرام ہے، بلکہ علامہ یوسف قرضاوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’وقت کو ضائع کرنا مال کے ضائع کرنے کی حماقت وسفاہت سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا ہے، کیوں کہ مال دوبارہ حاصل ہوسکتا ہے، لیکن وقت نکل جانے کے بعد دوبارہ نہیں لوٹتا۔‘‘ (۲۶)
[و]: اسٹیڈیم میں مختلف قسم کے کھیل اور ان کے میچ وغیرہ ہوتے ہیں،ان میچوں کو دکھانے کے لیے اسٹیڈیم کی انتظامیہ داخلہ کا ٹکٹ وصول کرتی ہے، ٹکٹ لے کر