چوسر ، شطرنج، کبوتر بازی، مرغ بازی، بٹیربازی، پتنگ بازی، تحریش بین البہائم؛ یعنی جانوروں کو آپس میں لڑانا، ویڈیوگیم ، گوٹی ، لوڈواور تاش وغیرہ ، ان تمام کھیلوں میں سوائے نقصانات کے دینی یا دنیوی کوئی فائدہ نہیں ، اس لیے یہ سب ممنوع ہیں۔(۲۲)
مروّجہ کھیلوں میں سے وہ کھیل جو جسم وروح کے نشاط کے ساتھ زندگی کے اعلیٰ مقاصد میں معاون ہو، شریعت نے ایسے کھیل کی اجازت ہی نہیں، بلکہ ترغیب دی ہے، مثلاً: نشانہ بازی، سواری کی مشق، تیراکی کی مشق، پیدل دوڑنا(۲۳)، شریعت کے اصول وقوانین کی پاسداری کرتے ہوئے، ان سب چیزوں میں مسابقت کرنا جہاں اجروثواب کا باعث ہے ، وہیں روحانی وجسمانی ورزش بھی ہے۔
[د]: جس صورت میں شرکائے کھیل ، شرکت کے لیے متعینہ رقم جمع کرتے ہیں، اور جو جیت جاتا ہے وہ اس رقم کا حق دار ہوتا ہے ، اور ناکام ہونے والے کو اپنی جمع کردہ رقم سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے ، تو پیسوں کی یہ شرط بوجہ قمار وخطر ناجائز اور ممنوع ہے۔ لیکن اگر کھلاڑیوں کو دیا جانے والا انعام وغیرہ تھرڈ پارٹی؛ یعنی کسی شخصِ ثالث کی طرف سے ہو ، مثلاً: کوئی ادارہ ، یا انجمن ، یا تنظیم (Uniuns)، تو یہ شرط درست وجائز ہوگی۔ علامہ حصکفی رحمہ اللہ فرما تے ہیں :
’’اگر کھیل میں جانبین سے شرط لگائی جائے تو یہ حرام ہے، کیوں کہ یہ قمار ہے ، ہاں ! اگر فریقین کسی تیسرے شخص (ادارے، تنظیم یا انجمن ) کو اپنا محلل بنالیں (جو جیتنے والے کو انعام دے گا)، تو یہ درست ہے۔‘‘ (۲۴)
اسی طرح علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بعض نے ہار جیت کی صورت میں شرط کو جائز قرار دیا ہے ، بشرطیکہ وہ کھیل میں