۱- ایسا کھیل جس میں کوئی دینی ودنیوی مصلحت ومقصد نہ ہو، نہ اس کی غرض، غرضِ صحیح ہو، بلکہ محض وقت گذاری ہو، تو ایسا کھیل نا جائز ہے۔
۲- ایسا کھیل جس میں کوئی مصلحتِ دنیوی یا اس کی غرض، غرضِ صحیح تو ہو،مگر اس کی ممانعت کتاب اللہ ، سنتِ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، تو وہ بھی ناجائز ہے۔
۳- ایسا کھیل جس میں لوگوں کے لیے مصلحت وفوائد تو ہوں، مگر تجربہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہو، کہ اس کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں، اور ان کا کھیلنا انسان کو اللہ کی یاد ، نماز اور فرائضِ شرعیہ سے غافل کردیتا ہے، تو یہ کھیل بھی ناجائز ہے۔
۴- ایسا کھیل جس کا مقصد دینی یا دنیوی مصلحت وفوائد کو حاصل کرنا ہو، تو مباح ہے، بشرطیکہ یہ کھیل کفار وفساق کاشعار نہ ہو، اور اس میں ہار جیت پر مال کی شرط نہ ہو۔(۱۷)
[ب]: لباس وپوشاک کے سلسلے میں کھلاڑیوں کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کی رعایت ضروری ہے:
۱- کھلاڑیوں کا ایسا لباس پہننا جس میں مرد عورتوں، اور عورتیں مردوں کی مشابہت اختیار کریں ، شرعاً جائز نہیں ہے۔(۱۸)
۲- کھلاڑیوں کا ایسا لباس پہننا جس سے حلیہ اور وضع قطع اس طرح بدل جائے کہ غیرمسلموں سے بظاہر کوئی امتیاز باقی نہ رہے، یہ بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اور ان لوگوں کی طرف مت جھکو جو ظالم ہیں (اپنے حق میں) ورنہ تمہیں بھی ( دوزخ کی ) آگ چھو جائے گی۔‘‘
(ولا ترکنوا) یہ رُکون یا جھکنا بہ اعتبار دوستی اور محبت اور شرکتِ احوال واعمال کے ہے۔ (تفسیر ماجدی:ص/۴۸۲)
حضرت قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایاکہ’’ مراد ہے کہ ظالموں سے دوستی نہ کرو، اوران کا کہا