پر ہنسنے کے پروگرام بھی رکھے جاتے ہیں، جس میں بہت سے لوگ بہ تکلف قہقہہ لگاتے ہیں ، اور دیر تک ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں، اس عمل کا شرعی حکم کیا ہے ؟ وغیرہ۔
جواب:[ و]:- ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق ہنسنا انسانی صحت کی برقراری اور اس کو چست ونشیط رکھنے کے لیے معاون فعل ضرور ہے، مگر ڈاکٹر وں کی آراء نصوصِ شرعیہ سے ثابت، ممانعتِ کثرتِ ضحک کے مقابل دلیل نہیں بن سکتیں، کیوں کہ شریعت نے ہنسنے کی ایک حد مقرر کردی ہے،اور اس کے لیے کچھ شرائط بھی ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :{فلیضحکوا قلیلاً ولیبکوا کثیرًا}۔’’سو تھوڑے دن ہنس لیں اور پھر (آخرت میں) بہت دن روتے رہیں۔‘‘ (سورۃ التوبۃ :۸۲)
علامہ عبد الماجد دریاآبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(قلیلاً وکثیرًا) قلیل میں اشارہ اس دنیا کی عارضی حیثیت کی جانب ہے، اور کثیر میں آخرت کے دوام کی جانب۔
(تفسیر ماجدی مع ترجمہ قرآن:ص/۴۱۷)
حضرت ابن حاتم رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ:’’ الدنیا قلیل فلیضحکوا فیہا ما شاء وا ، فإذا انقطعت الدنیا وصاروا إلی اللّٰہ فلیستأنفوا البُکاء بُکاء لا ینقطع أبدًا ‘‘ ۔ دنیا چند روزہ ہے، اس میں جتنا چاہو ہنس لو، پھر جب دنیا ختم ہوگی اور اللہ کے پاس حاضر ہوگے، تو رونا شروع ہوگا ، جو کبھی ختم نہ ہوگا۔
( تفسیر مظہری:۴/۲۵۲، معارف القرآن مفتی محمد شفیع:۴/۴۳۳)
نیز بمطابق فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم: ’’ زیادہ ہنسی دل کو مردہ کردیتی ہے۔‘‘(۱۲)
پتہ چلا کہ اسلامی شریعت نے ہنسنے سے منع تونہیں کیا، البتہ اس کی حدبندی کی ہے کہ