۵- غیر اقوام کی مشابہت اختیار نہ کی گئی ہو۔(۱۱)
نیز حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’مزاحِ منہی عنہ وہ ہے ،جس میں افراط ومداومت یعنی ہمیشگی ہو، کیوں کہ یہ شغل فی ذکر اللہ سے غفلت اور مہماتِ دین میں تفکر سے اعراض کا ذریعہ ہے، اور عموماً کثرتِ مزاح کی بنا پر قساوتِ قلبی وایذا رسانی ، حسداورکینہ کا جنم ہوتا ہے، اور انسان کی ہیبت ووجاہت اوراس کا وقار لوگوں کے دلوں سے ختم ہوجاتا ہے۔‘‘
(فتح الباری:۱۰/ ۵۴۳ ،قضایا:ص/۲۰۰)
اسی طرح قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مزاحِ محمود کے متعلق احادیث پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے، کہ ایسا مزاح جس کی وجہ سے دلوں میں کینہ وحسد، نفرت وعداوت پیدا ہو،اوروہ مزاح گالی گلوچ اور فحش باتوں پر مشتمل ہو، یا اس کے ذریعے کسی آدمی کی عزتِ نفس وآبرو اور جان ومال پر حملہ کیا جائے، تووہ مزاح غیر محمود ومذموم ہے، اور اس مزاح سے ہٹ کر ہے جو مزاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم (بعض مواقع پر) فرمایا کرتے تھے۔‘‘ (قضایا:ص/۲۰۰)
اگر کوئی مزاحیہ ڈرامہ مذکورہ بالا شرائط، اور حافظ ابن حجر وقاضی عیاض رحمہما اللہ کے شرائط پرپوری طرح سے نہ اترتا ہو، تو وہ غیر محمود ومذموم ہوگا، لہٰذا اس کامنعقد کرنا اور اسے لکھنا بھی درست نہ ہوگا، لیکن اگر کوئی مزاحیہ پروگرام ان تمام فواحش وخرافات سے خالی ہے، تو اس کا منعقد کرنا اور اسے لکھنا اور دیکھنا درست ہوگا۔
سوال:[ و]:- موجودہ دور میں ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ ہنسنا انسانی صحت کی برقراری اور اس کو چست ونشیط رکھنے کے لیے بہت معاون فعل ہے ، اس لیے خاص طور