صاحب حق کو اس کا حق دینا واجب ہے۔ (صحیح بخاري :۱/۲۶۴)
حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کو، جس نے نماز میںرکوع وسجود کوجلدی جلدی ادا کیا،فرمایا: ’’ لقد طفَّفتَ‘‘تونے اللہ کے حق میں تطفیف کردی، فاروق اعظم کے اس قول کو نقل کرکے حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ لکل شيء وفائٌ وتطفیفٌ‘‘- یعنی پورا حق دینا یا کم کرنا ہر چیز میں ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ کے اس قول کو بنیاد بناکر، حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اسی طرح حقوق العباد میں جو شخص مقررہ حق سے کم کرتاہے، وہ بھی تطفیف کے حکم میں ہے،مزدور،ملازم نے جتنے وقت کی خدمت کا معا ہدہ کیا ہے، اس میں سے وقت چرانا،کم کرنا بھی اس میں داخل ہے ،وقت کے اندر جس طرح محنت سے کام کرنے کا عرف میں معمول ہے، اس میں سستی کرنا بھی تطفیف ہے،اس میں عام لوگوں میں یہاںتک کہ اہلِ علم میں بھی غفلت پائی جاتی ہے، اپنی ملازمت کے فرائض میں کمی کرنے کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتا ،اعاذنا اللہ منہ۔‘‘ (معارف القرآن :۸/۶۹۴)
سوال:[ ج]:- مزاحیہ کہانیاں لکھنا ، انہیں پڑھنا اور ایسی کہانیوں پر مبنی کتابوں کو شائع کرنا ، نیز ان کی خرید وفروخت کرنا شرعی نقطۂ نظر سے کیسا ہے؟
جواب:[ ج]:- مزاحیہ کہانیاں لکھنا ، انہیں پڑھنا اور ایسی کہانیوں پر مشتمل کتابوں کو شائع کرنا ، نیز ان کی خرید وفروخت شرعی نقطۂ نظر سے جائز عمل ہے، مگر اس کی حد یہ ہے کہ آدمی وقتاً فوقتاً اس طرح کی کہانیاں لکھیں اور پڑھیں ، انہیں مستقل اپنا مشغلہ نہ بنائیں، کیوں کہ یہ ہماری زندگی کا مقصد اصلی نہیں ہے، بلکہ تفریحی چیز ہے، اور تفریحی چیزیں بقدر تفریح ہی ہونی چاہیے، نہ یہ کہ وہ مقصد اصلی پر غالب آجائیں۔