انسان کو اللہ کی یاد اور مہماتِ دین میں تفکر سے مشغول کردیتی ہے،اور ایسے مزاق کا ثمرہ قساوتِ قلبی ، ایذا، کینہ اور سقوطِ تعظیم وتوقیر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔(۵)
(۲) اسی طرح ایسی مزاق جس میں کذب بیانی اور دروغ گوئی ہو، شرعاً جائز نہیں ہوگی، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ثابت ہوتا ہے ، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے آپ سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!آپ ہم سے مزاق فرماتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : میں آپ لوگوں سے مزاق ضرور کرتا ہوں، مگر مزاق میں سچ بات ہی کہتا ہوں۔‘‘(۶)
سوال:[ ب]:- مزاحیہ پروگراموں کا منعقد کرنا جو کئی گھنٹوں پر مشتمل ہوں، یا مزاحیہ مشاعرہ منعقد کرنا کیا جائز ہوگا؟
جواب:[ ب]:- کئی کئی گھنٹوں کے مزاحیہ پروگراموں ،یامشاعرہ کو منعقد کرنا درست نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتاً فوقتاً مزاح فرمایا، لیکن اس کے لیے مستقلاً اس طرح کی مستقل کئی کئی گھنٹوں پر مشتمل مجلس منعقد نہیں کی، نیز اس طرح کے اتنے لمبے اور طویل مزاحیہ پروگرام منعقد کرنے میں انسان اپنے بہت سے فرائض اور ذمہ داریوں سے غافل بھی ہوجاتا ہے،جب کہ اسلام نے ہر صاحبِ حق کو اس کا حق دینے کا نہ صرف حکم دیا، بلکہ حقوق تلفی اور اس میں کوتاہی پر سخت وعید بیان فرمائی، ارشاد ِربانی ہے: {ویلٌ للمطفِّفینo الذین إذا اکتالوا علی الناس یستوفون}۔(خرابی ہے گھٹانے والوں کی ،وہ لوگ کہ جب ماپ کرلیں لوگوں سے، تو پورا بھر لیں )۔ (سورۃ التطفیف:۱،۲)
اسی طرح فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ’’ فَأعْطِ کُلَّ ذِيْ حقٍّ حقَّہٗ‘‘کہ ہر