اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت میں وارد ہے کہ: ’’ام سلیم‘‘ کے ایک صاحب زادے جنہیں ’’ابو عمیر‘‘ کہا جاتا تھا، بسا اوقات جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے، تو آپ اُن سے مزاح فرماتے تھے، ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حزین وغمگین حالت میں پایا، تو فرمایا: کیا بات ہے آج میں ابوعمیر کو غمگین دیکھتا ہوں؟ تو لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کا وہ چڑیا کا بچہ مرگیا جس سے وہ کھیلا کرتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یہ کہہ کر آواز دینے لگے: ’’ یا أبا عمیر ! ما فعل النغیر؟ ‘‘ (۳)
نافع مولیٰ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: عبد اللہ ابن عمررضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہما اپنی ایک آزاد کردہ باندی سے مزاح فرمایا کرتے تھے، اور اس سے کہا کرتے تھے:’’ خلقني خالق الکرام ، وخلقکِ خالق اللئام ‘‘۔ ’’مجھے شریفوں کے پیدا کرنے والے نے پیدا فرمایا، اور تجھے کمینوں کے پیدا کرنے والے نے۔‘‘، تو وہ آزادکردہ خاتون غصہ ہوتی، چلاتی، اور رویا کرتی تھی، اور حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ہنسا کرتے تھے۔(۴)
الغرض! ذخیرۂ احادیث پر نظر کرنے، اور حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے، کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ، مزاق ومزاح فرمایا کرتے تھے،جس سے اس کی اباحت واجازت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن مزاح ومزاق کی حدود ہیں:
(۱) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ایسی مزاح ومزاق منع ہے جس میں افراط ہو، یا ایسی مزاح منع ہے جس پر مداومت ہو، کیوں کہ اس طرح کی مزاح