جواب میں فرمایا: ’’اے ام فلاں! جنت میں بوڑھی عورت داخل نہیں ہوگی‘‘، جس پر وہ بوڑھی خاتون (اپنے متعلق یہ گمان کرکے کہ وہ ہر گز جنت میں داخل نہ ہوگی)بے قرار ہوگئی اور رونے لگ گئی۔‘‘…جب آپ نے اسے بے قرار اور روتے ہوئے دیکھا، تو اس کے سامنے اپنے کلام کی غرض بیان کردی کہ: میرے کلام کی مراد یہ ہے کہ بوڑھی عورت، بوڑھی ہونے کی حالت میں ہر گز جنت میں داخل نہیں ہوگی، بلکہ اللہ تعالیٰ اُسے دوبارہ پیدا فرمائیں گے، اور وہ جوان وباکرہ ہوکر جنت میں داخل ہوگی ، اور آپ نے اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھا:{إنآ أنشأنٰہنّ إنشآئًo فجعلناہنّ أبکارًا o عُربًا أترابًاo} ۔-’’ہم نے اٹھایا ان عورتوں کو ایک اچھی اٹھان پر ، پھر کیا ان کو کنواریاں ، پیار دلانے والیاں ہم عمر۔‘‘ (سورۂ واقعہ:۳۵-۳۷)(۱)
علامہ ابو البرکات رحمہ اللہ نے ’’ کتاب المراح في المزاح‘‘ میں اسی طرح کی ایک حدیث تخریج فرمائی ہے کہ: ’’ ایک خاتون جسے ’’ام ایمن‘‘ کہا جاتا تھا ، اپنے شوہر کے لیے کسی چیز کا سوال کرنے کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ، تو آپ نے اس سے فرمایا: تمہارا شوہر کون ہے؟ اس نے جواب دیا : فلاں، تو آپ نے فرمایا : اچھا وہ جس کی آنکھ میں سفیدی ہے؟ تو وہ کہنے لگی : اے اللہ کے رسول! ان کی آنکھ میں سفیدی نہیں ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیوں نہیں، ان کی آنکھ میں سفیدی ہے، اب وہ خاتون گھر آکر اپنے شوہر کی آنکھوں پر غور کرنے لگ گئی، تو شوہر نے اس سے کہا: کیا بات ہے؟ تو اس نے عرض کیا : مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ آپ کی آنکھوں میں سفیدی ہے، تو شوہر نے کہا:کیا تو نہیں دیکھتی کہ میری آنکھوں کی سفیدی ان کی سیاہی سے زیادہ ہے۔‘‘(۲)