اس مسئلے میں مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ نے اپنے اجتماع منعقدہ مؤرخہ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۶۵ء میں مختلف علما کے جوابات پر غور کرتے ہوئے ایک فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے پر مولانا شاہ معین الدین صاحب مرحوم، مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی صاحب، مولانا مفتی ظفیر الدین صاحب؛ مفتی دار العلوم دیوبند، مولانا سید فخر الحسن مرحوم؛ صدر مدرس دار العلوم دیوبند، مولانا محمد منظور نعمانی، مولانا سعید احمد اکبرآبادی، مولانا محمد اُویس ندوی، مولانا شاہ عون احمد قادری؛ پھلواری شریف پٹنہ، مولانا ابو اللیث ندوی اور مولانا اسحاق سندیلوی نے دستخط کیے تھے۔ اس تجویز کی نقل منسلک کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ زیر بحث مسئلہ یہ نہیں ہے کہ انشورنس کرانا جائز ہے یا ناجائز، اس وقت قابلِ توجہ بات صرف یہ ہے کہ اسے ناجائز تصور کرتے ہوئے فقہی ضرورت یا حاجتِ شدیدہ کی بنیاد پر اس عمل کی اجازت دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ نیز یہ کہ موجودہ حالات میں جان ومال کاجو خطرہ مسلمانوں کودرپیش ہے، وہ آپ کے نزدیک اس فقہی ضرورت یا حاجت بہ منزلہ ضرورت کے ضمن میں داخل ہے یا نہیں؟؟
الجواب وباللّٰہ التوفیق :
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ ’’انشورنس‘‘ ربوا، قمار، مخاطرہ جیسے معاصی وگناہوں پر مشتمل ہے، اور یہ وہ محرمات ہیں جن کی حرمت بہ نصِ کتاب وسنت ثابت ہے، اس لیے فی نفسہٖ انشورنس کرانا ، ناجائزوحرام ہے۔لیکن چوں کہ:
۱- آج کل ہندوستانی مسلمانوں کو جو حالات وحوادثات درپیش ہیں کہ ان کی جان ومال، اَملاک وجائداد غیر محفوظ ہیں، اور ہر وقت اس بات کا خطرہ لگا رہتا ہے کہ پتہ نہیں دشمن ہمارے جان ومال کو کس وقت تباہ وبرباد کردے گا، اس لیے محض بغرضِ