ہے، اور ’’ب‘‘ کو دس ہزار روپیہ نفع مل جاتا ہے، اور عام طور پر ’’ب‘‘ بھی بینک ہی سے منسلک ادارہ ہوتا ہے، اس طرح بالواسطہ اسے ہی دس ہزار روپئے نفع حاصل ہوتا ہے۔
تورُّق کی اس صورت کا ذکر عام طور پر فقہائے حنابلہ کے یہاں ملتا ہے، جو بظاہر ’’بیع عینہ‘‘سے قریب ہے، فرق یہ ہے کہ ’’بیع عینہ‘‘ میں خریدار جس شخص سے زیادہ قیمت پر اُدھار خریدتا ہے، اسی شخص سے کم قیمت پر فروخت کردیتا ہے، تورُّق میں ایک شخص سے زیادہ قیمت میں اُدھار ایک چیز خرید کرتا ہے، اور اس کے بجائے کسی اور شخص سے کم قیمت پر وہی چیز بیچ دیتا ہے۔…سوال یہ ہے کہ اسلامی بینکوں کے لیے ضرورت مندوں کو نقد رقم فراہم کرنے کے لیے اس طریقۂ کار کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ کیوں کہ شکل کے اعتبار سے یہ محض خرید وفروخت ہے، اور مقصد کے اعتبار سے قرض فراہم کی جانے والی رقم پر نفع حاصل کرنا ہے، احکامِ شریعت میں معاملات کی ظاہری شکل کی بھی اہمیت ہے، اورعاقدین کے مقاصد کی بھی۔
جواب: (الف): بیع تورُّق کی ایک صورت یہ ہے کہ طالبِ قرض کو ، نقد روپیہ قرض میں نہیں دیا جاتا، بلکہ اس کے ہاتھوں قرض دینے والا شخص کسی چیز کو ادھار یا قسط وار بیچ دیتا ہے ، اس شی ٔ کی قیمت نقد قیمت سے زائد ہوتی ہے، جس کو مشتری قسطوں میں ادا کرتا رہتا ہے ، اورجو چیز اس نے مقرض سے خریدی ، وہ کسی اور شخص کے ہاتھ، قیمتِ خرید سے کم پر نقد بیچ دیتا ہے، اور اس نقد رقم سے اپنی ضرورت پوری کرلیتا ہے، بیع کی یہ صورت بلا کراہت درست و صحیح ہونی چاہیے۔کیوں کہ اس میں دو باتیں قابلِ لحاظ ہیں: (۱) مقرض کا اپنی شی ٔ، مستقرض کے ہاتھوں ادھار یا قسط وار بیچنا ، اور یہ قیمت، نقد قیمت سے زیادہ رکھنا شرعاً یہ دونوں امور جائز ہیں، کیوں کہ شارع نے بیع