نے پورے ملک میں علمی شوق، تحقیقی ذوق، فکری اعتدال اور فقہی تحریک کو نہ صرف وجود بخشا، بلکہ انہیں پروان چڑھانے اور نوخیز علماء کو اس راہ پر ڈالنے کے لیے سمیناروں کو منعقد کرکے اپنے اکابرین سے علمی استفادہ، اسلوبِ تحقیق اور تعلیم وتربیتِ تطبیقِ احکام کے بہترین وسنہرے مواقع میسر کیے، جو یقینا حضرت الاستاذ کے لیے صدقۂ جاریہ ہے۔
بندۂ ناچیز کو (جس وقت وہ امارتِ شرعیہ میں شعبۂ افتا میں زیر تربیت تھا) حضرت رحمہ اللہ کی خصوصی نظر کرم وعنایت حاصل رہی، آپ رحمہ اللہ کی طبیعت چوں کہ افراد سازی کی تھی، اس لیے آپ چاہتے تھے کہ جو لوگ بھی میرے دامن سے وابستہ ہیں انہیں میں کسی کام کا بنادوں، اور ان میں بھی اپنی یہ فکر منتقل کردوں، تاکہ یہ فکر زندہ وتابندہ رہے، اور امتِ مسلمہ کی ایک اہم دینی وشرعی ضرورت پوری ہوتی رہے۔اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے ۱۹۹۰ء میں بندے کو اپنی اس اکیڈمی کا مندوب بنایا، اور اکیڈمی کے ذریعے جاری ہونے والے سوال نامے پر مقالہ تحریر کرنے کا حکم فرمایا، اس وقت سے آج تک ، آپ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی الحمد للہ اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری وذمہ داران ہر سمینار کے موقع پر جدید مسائل پر مشتمل سوال نامہ اِرسال کیا کرتے ہیں اور دعوتِ شرکت بھی دیتے ہیں۔ فجزاہم اللہ خیر الجزاء!
زیر نظر کتاب ’’فقہی، فکری واصلاحی مقالات ومضامین‘‘انہی مقالات کا مجموعہ ہے جو اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے لیے لکھے گئے، تمام مقالات چوں کہ جدید وعصری مسائل کے جوابات پر مشتمل ہیں، اور ان مسائل پر ملک کے دیگر فقہاء وعلماء کے مقالات وآراء موجود ہیں، جن میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے، لیکن اکیڈمی کا طریقۂ کار یہ ہے کہ اولاً وہ تمام مقالات کی تلخیص کرتی ہے، پھر ہونے والے سمینار میں بصورتِ عرضِ مسئلہ اُسے تمام شرکائے سمینار کے سامنے پیش کرتی ہے، اور مباحثہ ومناقشہ کے بعد جس رائے وحکم پر اتفاق ہوتا ہے، اسے بصورتِ تجویز امتِ مسلمہ کے سامنے پیش کرتی ہے۔ (کتاب’’نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے ‘‘انہی تجاویز کا مجموعہ ہے)اس لیے یہاں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ نئے مسائل سے متعلق بندے کی رائے وہی ہے جو اکیڈمی کی تجاویز ہیں، کیوں کہ وہ اجتماعی رائے ہے، اور اجتماعی رائے کے مقابلے میں انفرادی رائے بہر حال کم درجے کی ہوتی ہے، جب کہ عمل قولِ راجح پر ہوتا ہے ،نہ کہ مرجوح پر، اس لیے مقالات میں موجود رائے اگر اکیڈمی کی تجاویز کے موافق ہو، تو اس پر عمل کرلیا جائے، ورنہ اکیڈمی