لیے قرآن کریم میں ہدایات واصول موجود ہیں۔ کچھ اصول صراحۃً موجود ہیں، تو کچھ اشارۃً، کچھ دلالۃً تو کچھ اقتضاء ً ورُوح کے انداز میں، ان تمام اصولوں اور ہدایتوں کی ضروری تفصیل وتشریح احادیثِ مبارکہ میں اس حد تک وارد ہوئی ہے ،کہ اسی کو بنیاد بناکر فقہائے کرام نے اپنے اپنے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں نئے پیش آمدہ مسائل کے جزئی وتفصیلی احکام بیان کیے ہیں، اور آج بھی حضراتِ علمائے کرام وفقہائے عظام اس فرض کو انجام دے رہے ہیں۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج نئے نئے مسائل جس تیزی کے ساتھ رونما ہورہے ہیں، اسی تیزی کے ساتھ انہیں حل کرنے کے لیے جس قدرقَوِی ومضبوط قُویٰ اور علمی صلاحیتوں کے حامل افراد درکار ہیں، وہ دن بدن کم ہو رہے ہیں، اب مدارسِ دینیہ ومراکزِ علمیہ سے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ اور ان کے شاگردوں جیسے علماء وفقہاء پیدا نہیں ہورہے ہیں، یہ دور، دورِ انحطاط ہے، اس لیے نئے مسائل کا حل کسی ایک فرد کے بس کا نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے ایک ایسی باصلاحیت ومتدین جماعتِ علماء کی ضرورت ہے، جو متقدمین فقہاء وعلماء کے اجتہادات وتحقیقات سے استفادہ کرتے ہوئے، نئے مسائل کی صورتوں اور کیفیتوں کو اُن کے ماہرین سے معلوم کرکے اُن پر احکامِ شرعیہ کا انطباق کریں۔
الحمد للہ! مختلف ملکوں میں ہماری علماء برادری اپنی اِس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے، اپنے اپنے علاقوں اور ملکوں میں ’’مجامعِ فقہیہ ‘‘ کو قائم کر کے امت کو نئے مسائل کا حل پیش کررہی ہے۔
ملکِ عزیز ہندوستان میں بھی اس قسم کی کاوشیں کی گئیں، مختلف مجالس و مباحثِ فقہیہ وجود میں آئیں، اور انہوں نے نئے مسائل پر غور وفکر کرکے بعض اہم وضروری مسائل کا حل امت کے سامنے پیش کیا۔ لیکن یہ کوششیں محدود تھیں، او رحالات اس بات کے متقاضی تھے کہ ملک گیر سطح پر اہلِ علم واہلِ فتویٰ کو اس کام کے لیے تیار کیا جائے، علماء وفقہائے عصر؛ جدید عصری مسائل پر ایک دوسرے کی آراء سے استفادہ کرکے کوئی متفقہ حکم امتِ مسلمہ کے سامنے پیش کریں، کہ یہ اتفاق واتحادِ امت کی کلید وکنجی ہے۔
حضرت الاستاذ فقیہ عصر، نباضِ وقت، مجاہد قوم وملت، بے لوث وبے غرض خادمِ دین، قاضی القضاۃ؛ مولانا مجاہد الاسلام صاحب قاسمی رحمہ اللہ نے اس تقاضے کو بروقت محسوس فرمایا، اور ۱۹۸۹ء میں ’’اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا‘‘ کی بنیاد رکھی، جس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس