جواب:۲- شریعت نے عام حالات میں خواتین پر نہ ان کے اپنے نفقہ کی ذمہ داری رکھی، اور نہ ہی ان کے بچوں کے نفقہ کی، نفقہ کا ذمہ دار صرف اور صرف مرد ہی کو قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ کوئی بھی خاتون یا تو کسی کی بیوی ہوگی،یا لڑکی ہوگی، یا ماں ہوگی، یابہن ہوگی وغیرہ، اور ان تمام صورتوں میں شریعت نے اُس کا نفقہ شوہر، باپ، بیٹے، بھائی وغیرہ پر لازم کیا ہے۔ (۶)
سوال:۳- محض معیارِ زندگی کو بلند کرنے ، یا وقت گزاری اور سرمایہ واثاثہ پیدا کرنے کی غرض سے عورتوں کے لیے معاشی جد وجہد اختیار کرنے کا کیا حکم ہے؟ جب کہ گھر کی مالی حالت ایسی ہے کہ جس میں تنگی وترشی سے کام چل سکتا ہے اور چلتا ہے۔
جواب:۳- محض معیارِ زندگی بلند کرنے، یا وقت گزاری او راثاثہ پیدا کرنے کی غرض سے، عورتوںکے لیے معاشی جدو جہد اختیار کرنا شرعاً جائز نہیں ہوگا، کیوںکہ اس سے اوامرِ شرعیہ کی مخالفت اور نواہی کا ارتکاب لازم آتا ہے، مثلاً :
(۱) اگر عورت معاشی جدوجہد اختیار کرتی ہے، تو اسے اپنے گھر کی چہار دیواری چھوڑنی ہوگی، جب کہ اسے حکم یہ ہے کہ وہ گھر میں قرار کے ساتھ رہے، تبرُّ ج اور زینت اختیار نہ کرے۔(۷)
(۲) خانگی اُمور کی اصلاح اور اپنی اولاد کی تربیت عورت کے ذمہ ضروری ہے، جو در حقیقت پوری قوم اور معاشرے کی بنیاد ہے،اور معاشی جدو جہد اختیار کرنے سے اس کی یہ ذمہ داری متاثر ہوگی، اور یہ بھی مخالفتِ امرِ شرع ہے۔(۸)
(۳) بے پردگی ہوگی، غیر محرم مردوں سے اختلاط ہوگا،اور بعض موقعوں پر ان سے