القریتین أو المصر والقریۃ للاحتراز عن نیۃ الإقامۃ في موضعین من مصر واحد أو قریۃ واحدۃ فإنہا صحیحۃ لأنہمامتحدان حکمًا ألا تری أنہ لو خرج إلیہ مسافرًا لم یقصر ‘‘ ۔ (البحر الرائق :۲/۲۳۳، ط : بیروت)
صاحب ’’البحرالرائق‘‘ کی اس عبارت کا آخری جز: ’’ ألا تری أنہ لو خرج إلیہ مسافرًا لم یقصر ‘‘صاف طور پر یہ بتلارہا ہے، کہ ایسا شہر جو مسافتِ سفر کی بقدر آبادی پر مشتمل ہو، اور کوئی شخص اس شہر کی ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف بہ قصدِ سفر نکلے، تو وہ مسافر نہیں ہوگا، اور اسے قصر کی رخصت نہیں دی جائے گی۔…یہی رجحان فقیہ الامت، حضرت مولانا مفتی محمودالحسن رحمہ اللہ کا معلوم ہوتاہے، آپ ایک استفتاء کے جواب میں لکھتے ہیں : ’’وطن کے آخری مکان سے مسافتِ سفر شروع ہوگی، اور جس بستی میں جانا ہے اس کی ابتدائی سرحد تک مجموعی مسافت کو دیکھا جائیگا۔‘‘ (فتاویٰ محمودیہ:۷/۴۷۶)
شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت بر کاتہم کارجحان یہ ہے کہ شہروں کے درمیان مسافتوں کا تعیُّن سرکار ی کاغذات میں جس بنیاد پر ہوتاہے، اسی کو سفرِ شرعی کے تعیُّن کی بنیاد قراردینے میں سہولت معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے :
(۱) اگرکوئی شخص ۴۸؍میل کا راستہ طے کر لے، لیکن ابھی وہ شہر ہی میں ہو، شہر کی حدودسے باہرنکلنے کی نوبت نہ آئی ہو،اوراس سے آگے جانے کا ارادہ بھی نہ ہو، تو اس پر مسا فر کے احکا م جاری نہیں ہوںگے ۔
(۲) اگر وہ ایسے مقام کا سفر کررہا ہو، جو شہر کی انتہائی حدودسے تو ۴۸؍میل کے فاصلے پر نہ ہو، لیکن اس کے گھر کے پاس سے ۴۸؍میل یا اس سے زیادہ کے فاصلے پر ہو، تو بھی وہ مسافر نہیں ہوگا۔ (مسافتِ سفر کا آغاز ایک اہم شرعی مسئلہ:ص/۲۷۷- ۲۷۹)