اہمیت کے حامل ہیں کہ حنفیہ اور بعض اور فقہاء کے نزدیک مسافر کے لیے قصر کا حکم بطورِ عزیمت کے ہے نہ کہ بطورِ رخصت کے، اور قصر واجب ہے نہ کہ محض جائز۔
جواب: شریعتِ اسلامیہ میں سفر کی بنیاد پراپنے ماننے والوں کے لیے بعض سہولتیں دی گئی ہیں،مثلاً نماز میں قصر کرنا،اِفطار کامباح ہونا،مدتِ مسح علی الخفین کاتین دن تک دراز ہونا ،جمعہ ،عیدین اور قربانی کے وجوب کا ساقط ہونا، اور آزاد عورت کے لیے بلامحرم نکلنے کاحرام ہونا وغیرہ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح: ص/۲۲۸ ، الفتاوی الہندیۃ :۱/۱۳۸، رد المحتار:۲/۵۹۹)
مگر یہ سہولتیں علمائے کرام کے مشہور نقطۂ نظر کے مطابق اسی وقت حاصل ہونگی،جب کہ مسافتِ سفر ۴۸؍میل ہو۔’’ ولا معتبر بالفراسخ ہو الصحیح‘‘۔ (الہدایۃ :۱/۱۴۵، باب صلاۃ المسافر ، الفتاوی الہندیۃ:۱/۱۳۸، رد المحتار:۲/۶۰۲)
نیزفقہائے کرام کی عبارتیں اس بات پر شاہد ہیں کہ مسافر ان سہولتوںسے اسی وقت فائدہ اٹھاسکتا ہے، جب کہ عملًاشہر کی آبادی اور اس کے متعلقات سے باہر نکل جائے ۔ ’’ من جاوز بیوت مصرہ مریدًا سیرًا وسطًا ثلاثۃ أیام ‘‘۔(تبیین الحقائق :۱/۵۰۶)
لیکن آج آبادی میں اضافہ اور دیہی آبادیوں کے شہر کی طرف منتقل ہونے کی وجہ سے شہر پھیلتے جارہے ہیں، اور بعض شہر تو اتنے پھیل چکے ہیں کہ مسافتِ سفر شہری حدودہی میں پوری ہوجاتی ہے، تو اب فقہائے کرام کے سامنے یہ سوال آکھڑا ہواکہ مسافتِ سفر-آیامسافر کے گھر سے شمار ہوگی؟ یا شہری حدود کی انتہا سے ؟تو فقہائے کرام کی عبارتوں سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ جہاں حدودِ شہر ختم ہو، وہی سے مسافتِ سفر شمار ہو، کیوں کہ شہر کی آبادی خواہ کتنی ہی تجاوز کرجائے ،وہ بلد واحد ہی کے حکم میں ہوگی۔ ’’ قولہ : (لا بمکۃ ومنی) ۔۔۔۔۔ قید بالمصرین ومرادہ موضعان صالحان للإقامۃ لا فرق بین المصرین أو