ہوئے اسے ناقابل تلافی نقصان قرار دیااور کہا:
’’امیر شریعت کے انتقال سے وہ بہت زیادہ غم زدہ ہیں، وہ پچھلے سترہ سالوں سے امیر شریعت کی ذمہ داری بخوبی نبھاتے رہے، اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری کی ذمہ داری نبھانے کے ساتھ ساتھ پورے ملک کی کئی تنظیموں سے بھی وابستہ رہے۔‘‘
سابق وائس چانسلرمتھلا یونیورسٹی وسابق ایم ایل سی بہار کونسل ڈاکٹر پدما شا جھانے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا:
’’حضرت مولانا نظام الدین صاحب کے انتقال پر اُنہیں گہرا دکھ ہوا، مولانا موصوف کو وہ برسوں سے جانتی تھیں، وہ سبھی طبقے کے غریب لوگوں کی مدد کرتے تھے، خاص طور سے مجبور اور معذور خواتین کے حمایتی تھے۔‘‘
اخبار ’’قومی تنظیم‘‘ کے چیف ایڈیٹرو منیجنگ ایڈیٹر اشرف فرید وطارق فرید صاحبان نے کہا:
’’امیر شریعت کا انتقال نہ صرف بہار ، اڑیسہ وجھارکھنڈ کے لیے، بلکہ پورے ملک کے مسلمانوں کے لیے ایک حادثۂ جانکاہ ہے، اور ایک زریں عہد کا خاتمہ ہے، آپ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے ملک کے مسلمانوں کے دینی وملی قائد ورہنما اور مرجع رہے، آپ نے امارتِ شرعیہ بہار ، اڑیسہ وجھارکھنڈ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم سے جو خدمات انجام دی ہیں، وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔‘‘
خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں، مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی نے آپ کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار فرمایا، اور کہا: