وہ بھی راس نہ آئی، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے سونے کی ناک بنواکر لگائی، حالانکہ سونے کااستعمال مردوں کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے۔
ہم عام طور پر مصنوعی دانت بنواکر خود بھی لگالیتے ہیں، اور دوسرے مسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دیتے ہیں، جو پاک مسالوں سے تیار ہوتے ہیں،اور ترمذی شریف میں سونے کے تاروں سے دانتوں کے باندھنے کا ذکر کیاگیا ہے۔ اور اب تو انسانی جسم کے تقریبًا تمام اعضاء مصنوعی بننے شروع ہوگئے ہیں، جنہیں انسان استعمال بھی کررہے ہیں۔… معلوم ہوا کہ جس طرح پاک مصنوعی اعضا کااستعمال شرعاً جائز ہے، مذبوح جانوروں کے اعضا کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے، شرعاً اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔البتہ زندہ جانور کاکوئی حصہ کاٹ کر اعضا کی پیوندکاری میں استعمال کرنا جائز نہیںہے کہ وہ مُردار کے حکم میں ہے۔جیسا کہ ’’در مختار‘‘ میں ہے: ’’اَلْمُنْفَصِلُ مِنَ الْحَيِّ کَمَیْتَۃٍ ‘‘ ۔ ’’ زندہ جانور سے جدا ہونے والا عضو مردہ کے حکم میں ہے۔‘‘… اور ترمذی شریف میں ہے:’’ مَا یُقْطَعُ مِنَ الْبَہِیْمَۃِ وَہِيَ حَیَّۃٌ فَہُوَ مَیْتَۃٌ ‘‘ ۔’’زندہ جانور کا کاٹا ہوا حصہ مردہ کے حکم میں ہے۔‘‘
لیکن اگر کوئی انسان خود اپنے جسم کے کسی حصے کو کاٹ کر جسم کے دوسرے حصے میں استعمال کرے، تو اس میں کوئی اشکال نہیں، یعنی ایسا کرنا جائز ہے، اس لیے کہ اس طرح سے انسان صحت مند بھی ہوجاتا ہے، کوئی عیب بھی نہیں رہتا، اور بِکری خریداری کی کوئی بات بھی سامنے نہیں آتی۔ فقہ وفتاویٰ کی کتابوں میں انسانی اَجزا کی خرید وفروخت کو انسانی عظمت کے پیش نظر عام طور پر ناجائز وحرام قرار دیا گیا، خواہ وہ زندہ انسان کا حصہ ہو یا مرنے والے کا،اس لیے کہ انسان اپنی موت کے بعد بھی ویسا ہی