یکلّم رسول اللّٰہ ﷺ ومن یجترئ علیہ إلا أسامۃ بن زید حِبُّّ رسول اللّٰہ ﷺ فکلّم رسول اللّٰہ ﷺ فقال : ’’ أتشفع في حدّ من حدود اللّٰہ ؟ ثم قام فخطب فقال : یا أیہا الناس ! إنما ضلّ من قبلکم أنہم کانوا إذا سرق الشریف ترکوہ ، وإذا سرق الضعیف فیہم أقاموا علیہ الحدّ ، وأیم اللّٰہ ! لو أن فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطع محمدٌ یدہا ‘‘ ۔ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ قریش کو ایک مخزومی عورت کا بہت خیال تھا، جس نے چوری کی تھی، لوگوں نے کہاکہ کون رسول اللہ ا سے گفتگو کرے گا؟ رسول اللہا کے محبوب حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے سوا اور کون اس کی جرأت کرسکتا ہے؟ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ا سے گفتگو کی، آپ ا نے فرمایا: تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو، پھر آپ ا کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! تم سے پہلے کئی قومیں ہلاک ہوگئیں، اس لیے کہ جب ان میں کا شریف چوری کرتا، تو وہ لوگ اسے چھوڑ دیتے، اور جب کوئی کمزور چوری کرتا، تو اس پر حد جاری کرتے، اور قسم ہے خدا کی! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی، تو محمد اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا‘‘۔
(صحیح بخاری:۲/۱۰۰۳، باب کراہیۃ الشفاعۃ فی الحد إذا رفع الی السلطان، حدیث : ۱۶۹۲، سنن نسائی :حدیث:۴۹۰۱)
کچھ دنوں سے مہاراشٹر بھر میں - ’’گائے اور اس کی نسل ؛ بیل ، بچھڑے کے ذبیحہ پر پابندی کا حکم‘‘- اخباروں کی شہ سرخیاں بنا ہوا ہے، اس قانون کی مخالفت صرف وہی لوگ نہیں کررہے ، جو گوشت خور ہیں، بلکہ وہ تمام لوگ اس کے مخالف ہیں ، جن کی روزی روٹی اس کاروبار پر موقوف ہے، اور اخباری رپورٹوں کے مطابق اس کاروبار سے منسلک - ہر چار افراد میں سے تین کا تعلق - برادرانِ وطن- سے ہے، گویا اس کاروبار میں ۷۵؍ فیصدوہ لوگ ہیں، جو مسلم نہیں ہیں۔