یرتدع إلا بالعقوبۃ القاسیۃ شددت علیہ العقوبۃ وإن کان من الاشراف وکانت الجریمۃ منہ ہفوۃ عوقب بعقوبۃ خفیفۃ ‘‘ ۔
جرمانہ کی رقم کی تعیین میں مجرم کی حالت کی رعایت ہونی چاہیے، کیوں کہ ایک ہی جرم کی سزا مختلف مرتکب اشخاص کے حالات کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے، اگر مرتکب سرکش ہے، تو سخت سزا کے بغیر جرم سے باز نہیں آئے گا، اس لیے اس کی سزا سخت ہوگی، اور اگر مرتکب معزز لوگوں میں سے ہے، اور اس کا جرم ہلکا ہے، تو اس کے لیے ہلکی سزا کافی ہوگی۔ ’’المعیار المعرب :۲/۴۱۷‘‘ میں بھی ہے کہ مجرم کی حیثیت اور جرم کی نوعیت کو تعزیر کے وقت ملحوظ رکھا جائے گا۔
حضرت امام ابو یوسف نے مالی جرمانہ میں جو یہ شرط لگائی ہے کہ مجرم کے تائب ہونے کے بعد جرمانہ کی رقم اس کو واپس کردی جائے، تو ظاہر ہے کہ واپس کردینے کی شکل میں ’’سد ذرائع معاصی‘‘ مشکل ہوگا، کیوں مجرم جب دیکھے گا کہ اس کی رقم اس کو ایک نہ ایک دن مل جائے گی، تو اس جرمانہ کا اس پر کوئی اثر مرتب نہ ہوگا، بلکہ وہ اپنے آپ کو ایسا ہی تصور کرے گا، جیسے کہ اس کو کوئی سزا نہیں دی گئی، اس لیے جرمانہ کی رقم واپس نہ کرکے قومی، ملی اور رفاہی کاموں میں خرچ کردینا مناسب ہوگا۔
نوٹ:- مرتب کے نزدیک اس سلسلے میں ’’عاقلہ‘‘ سے استدلال کرنا زیادہ مناسب ہے وہ بھی ایک اجتماعی مالی جرمانہ ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’جامعۃ الرشاد‘‘ اعظم گڑھ، یوپی:ص/۲۰- ۳۳،جنوری ۱۹۹۰ء)