کے غلاموں نے ذبح کردیا تھا۔ حضرت عمر نے اپنے اس عمل کے جواز کے لیے اس بات کو سامنے رکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر مالی جرمانہ عائد فرمایا، جو زکوۃ کی ادائیگی نہیں کرتے، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے زکوۃ اپنی مرضی سے ثواب کی خاطر دیا، تو اس کو اس کا اجر ملے گا، اور جو شخص زکوۃ ادا نہیں کرے گا، تو ہم اس سے زکوۃ بھی لیںگے، اور اس کے مال کا ایک حصہ بھی، یہ ہمارے رب کی طرف سے تاوان ہے، اس میں سے آلِ محمد کو کچھ نہیں ملے گا۔
ہمارے سامنے جواز وعدمِ جواز ؛ دو طرح کی عبارتیں ہیں، لہٰذا ’’رسم المفتی‘‘ کے اس قاعدے کے تحت کہ- قضاء میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے قول کا اعتبار ہوگا- فتویٰ امام ابو یوسف کے قول پر ہی ہونا چاہیے۔
یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اما م ابو یوسف رحمہ اللہ صرف والی یا امیر کو تعزیر بأخذ المال کی اجازت دیتے ہیں، اور ہندوستان میں والی یا امیر نہیں ہے، لہٰذا آج ہر گاؤں اور قصبے میں اپنا ایک امیر یا والی منتخب کرنا ہوگا، وہ اس طرح کے مسلمان اپنی رضامندی سے کسی کو اپنا والی یا امیر بنالیں۔ ’’ ویصیر القاضي قاضیًا بتراضي المسلمین ‘‘ ۔ (فتاوی ہندیہ :۱/۱۴۶)
نیز مالی جرمانہ کی مقدار کی تعیین کے وقت مجرم کی معاشی حالت، سماجی مقام اورجرم کی نوعیت کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔
’’موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب :ص/۲۱۰‘‘ (تالیف دکتور محمد رواس قلعہ جی) میں ہے:
’’ تناسبہا مع حالتہ الجاني بأن تکون رادعۃ لہ ، ولذلک فإن العقوبۃ لجریمۃ معینۃ قد تختلف باختلاف مرتکبہا ، فإن کان مرتکبہا من العتاۃ لا