رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں:
’’جہنمیوں کی دو جماعتیں ہیں ،میں نے ان دونوں(کی طرح) کو نہیں دیکھا ، ایک ایسی قوم ہے کہ ان کے ساتھ گایوں کی دُموں کی طرح کوڑے ہیں ، جن سے وہ لوگوں کو ماررہے ہیں ، اور ایسے کپڑے پہنی ہوئیں عورتیں ہیں جو برہنہ ہیں، مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہیں،ان کے سر بُختی اونٹوں کے جھکے ہوئے کوہانوں کی مانند ہیں، جو جنت میں داخل نہیں ہوں گی، اور نہ وہ اس کی خوشبو پاسکیں گی، جب کہ اس کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس کی جاسکتی ہے ۔‘‘
عن أبي ہریرۃ قال : قال رسول اللّٰہ ﷺ : ’’ صنفان من أہل النار لم أرہما ؛ قوم معہم سیاط کأذناب البقر یضربون بہا الناس ، ونسائٌ کاسیات عاریات ممیلات مائلات ، رؤوسہن کأسنمۃ البخت المائلۃ لا یدخلن الجنۃ ولا یجدن ریحہا ، وإن ریحہا لتوجد من مسیرۃ کذا وکذا‘‘۔ (صحیح مسلم :۲/۲۰۵، کتاب اللباس ، باب النساء الکاسیات العاریات المائلات الممیلات)
حضرت آدم وحوا علیہما السلام اور اغوائے شیطانی کے واقعہ میں شیطانی حملہ کا پہلا اثر یہی ہوا کہ ان دونوں کے جسموں سے جنتی لباس اتر گئے، اوروہ ننگے رہ گئے، اور پتوں سے اپنے ستر چھپانے لگے ، آج بھی شیطان اپنے شاگردوں کے ذریعے تہذیب وثقافت ، آزادی ٔ فکر وخیال اور جدید ترقی کے نام پر انسانوں کے لباس اُتروانے میں پوری طرح مصروف ہے، کہیں تو وہ اس فکر کو عام کررہا ہے کہ انسان چوںکہ برہنہ پیدا ہوا ہے ، تو اس کا برہنہ اور ننگا ہونا فطری چیز ہے ، اس لیے اسے برہنہ ہی زندگی گزارنا چاہیے، کہیں اس برہنگی کو رواج دینے کے لیے برہنہ ہوکر ہوائی سفر کر نے کے لیے،