کے سراسر منافی ہے ، کیوں کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ صحت وتندرستی اللہ کا عطیہ ہے ، اور ہر بیماری سے شفا دینے والی ذات اللہ کی ہے، نہ کہ یوگا ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: {وإذا مرضت فہو یشفین} ۔ (سورۃ الشعراء :۸۰)
نیز شریعت ہمیں اپنی دعاؤں میں بھی اس کی تعلیم دیتی ہے، جیسے :
’’ أذہب البأس رب الناس ، واشف أنت الشافي ، لا شفاء إلا شفاؤک لا یغادر سقمًا ‘‘ ۔ (سنن النسائي :۴/۲۵۸، رقم :۷۵۰۸)
شریعتِ مطہرہ نے شفا کے جو طریقے بیان کیے ہیں، وہ دو طرح کے ہیں: عقلی ونقلی، نقلی طریقے، مثلاً: قرآن کی آیات، اسمائے الٰہیہ وغیرہ پڑھ کر دم کرنا، دعا کرنا ، آبِ زم زم شفا کی نیت سے پینا، شہد استعمال کرنا، کلونجی کا استعمال ، پچھنہ لگوانا، روزہ رکھنا وغیرہ۔
عقلی طریقے ، مثلاً: وہ طریقے جو ماہرینِ طب دواؤں او ر جڑی بوٹیوں پر تجربہ کر کے بیان کرتے ہیں، مگر ہر صورت میں مسلمان کایہ اعتقاد ہوگا کہ مؤثر بالذات ومؤثر حقیقی صرف اور صرف اللہ ہی ہے، یہ تمام چیزیں مؤثر حقیقی نہیں ہیں۔
(۲)اسی طرح یوگی کہتے ہیں کہ یوگا کرناحصولِ سعادت اور اس کاترک شقاوت کا ذریعہ ہے ، یہ بھی عقیدۂ اسلام کے خلاف ہے، کیوں کہ سعادت وشقاوت مقد ر من اللہ ہے ، سعادت نہ یوگا سے حاصل ہوتی ہے ، اور نہ ہی ترکِ یوگا موجبِ شقاوت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : عن عبد اللّٰہ بن مسعود یقول : (( الشقي من شقي في بطن أمہ ، والسعید من وعظ بغیرہ )) ۔
(السنن الکبری للبیہقي :۷/۶۹۲، رقم :۱۵۴۲۴)
(۳) نیز یوگیوں کا ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ یوگا سے عمر میں زیادتی ہوتی ہے ،عمر بڑھتی ہے ، ان کا یہ عقیدہ بھی اسلامی عقائد کے سراسر خلاف ہے ،کیوں کہ عمر مقدر من اللہ