لازم آتاہے ، جب کہ مال ووقت دونوں کو ضائع کرنا شرعاً حرام ہے ،علامہ یوسف القرضاوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ وقت کوضائع کرنا مال کے ضائع کرنے کی حماقت وسفاہت سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا ہے ،کیوں کہ مال دوبارہ حاصل ہوسکتا ہے، لیکن وقت نکل جانے کے بعد دوبارہ نہیں لوٹتا ۔ (الألعاب الریاضیۃ :ص/۳۲۰)
۵؍ مدارس ،اسکول ،کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ واسٹوڈنس کی تعلیم متأثر ہوتی ہے ،جب کہ طلبِ علم فرض ہے ۔ (المعجم الأوسط للطبراني :۶/۲۳۱)
۶؍ کسی ٹیم کے ہارجانے پر اس کو سخت رسوا وذلیل کیا جاتا ہے، جب کہ یہ امر شرعاً حرام ہے ۔ (جامع الترمذي :۲/۳۹ ؍۱۴، مشکوۃ المصابیح :ص/۴۲۲)
۷؍ بسااوقات اس کھیل کے شرکاء کو سخت جسمانی اذیت ونقصان اٹھانا پڑتا ہے کہ بعض کی ٹانگیں ٹوٹتی ہیں، اور بعض کے پیٹ میں ایسی سخت چوٹ لگتی ہے کہ وہ لبِ مرگ ہوجاتاہے، جب کہ اسلام نے اپنے آپ کو اس طرح کی اذیت پہنچانے والے ہر عمل سے منع کیا۔ (سورۃ البقرۃ : ۱۹۵)
۸؍ جب یہ کھیل دو قومی ٹیموں کے مابین ہوتاہے، تو دنگے فساد کا سبب بنتا ہے ،جس سے بے شمار جانیں فوت اور بے انتہا مال تلف ہوتا ہے، جب کہ حفاظتِ جان و مال مقاصد ِ شرعیہ میں داخل ہے۔
(الموافقات للشاطبي :۲/۳۲۶ ، طرق الکشف عن مقاصد الشارع :ص/۳۵ ، مقاصد الشریعۃ الإسلامیۃ لإبن عاشور:ص/۹۲، المقاصد الشرعیۃ للخادمي :ص/۵۸)
۹؍ اس کھیل میں شریک ٹیموں کے ہاروجیت پر بڑا جوا کھیلا جاتاہے، جوشریعت کی نگاہ میں حرام ہے ۔
(سورۃ المائدۃ :۹۰ ، ۹۱ ، الموسوعۃ الفقہیۃ :۳۵/۲۶۹، الفتاوی الھندیۃ :۵/۳۲۴)