درحقیقت یہودیوں کا تہوار ہے، وہ لوگ اس دن بگل بجاکر جشن مناتے ہیں، اور اس دن کام کاج کو ایسا ہی حرام اعتقاد رکھتے ہیں، جیسے سنیچر کے دن ان کے نزدیک کام کرنا حرام ہے، نیز ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اس دن اسحاق علیہ السلام نے بارگاہِ ایزدی میں قربانی پیش کی تھی، ان کے نزدیک یہ دن ایسا ہی مقدس اور متبرک ہے جیسے مسلمانوں کے نزدیک عیدالاضحی۔ (الأعیاد وأثرہا علی المسلمین :ص/۳۰)
یہودیوں نے اپنی تہذیب و ثقافت، اور مذہبی اقدار کو اتنا فروغ دیا کہ عیسائی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، اور انہوں نے بھی اس عید کو اتنی دھوم دھام اور تزک واحتشام کے ساتھ منانا شروع کیا کہ اب وہ عیسائیوں کا ہی تہوار سمجھا جانے لگا، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اب یہ تہوار بعض مسلم ممالک بھی منانے لگ گئے، اور ان کے یہاں بھی سالِ ماضی کو الوداع کہنے، اور سالِ نو کے استقبال کے لیے سرکاری دفاتر میں چھٹیاں رکھی جاتی ہیں، اور لوگ اپنے کاروبار بند رکھ کر جشن مناتے ہیں، جو سراسر غیر اسلامی رسم ہے، اسلام میں اس کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں، بل کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہبی تہواروں میں ایک طرح کی شر کت ہے، اور ان کے ساتھ مشابہت ہے، جس سے اہلِ اسلام کو روکا گیا، اور غیروں کی مشابہت پر سخت وعید وارد ہوئی ہے: ’’ من تشبہ بقوم فہو منہم ‘‘۔ جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے۔ (المعجم الکبیر للطبراني ، مجمع الزوائد :۵/۱۶۹)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو شخص مسلمان ہوتے ہوئے غیروں کے رسم ورَواج اور طور و طریق کو اختیار کرے، وہ اللہ رب العزت کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض اور ناپسندیدہ ہے۔ عن ابن عباس قال : قال رسول اللّٰہ ﷺ :