مختار)۔۔۔۔۔ وفي الشامیۃ : قولہ : لبقاء شيء من البلۃ في الداخل ‘‘ ۔
(ردالمحتار:۳/۳۶۹)
’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے :’’ ولو أدخل اصبعہ في استہ أو المرأۃ في فرجہا لا یفسد ، وہو المختار إلا إذا کانت مبتلۃ بالماء أو الدہن ، فحینئذ یفسد لوصول الماء أو الدہن ۔ ہکذا في الظہیریۃ ‘‘ ۔ (۱/۲۰۴)
’’ وأما في قبلہا فمفسد إجماعا ؛ لأنہ کالحقنۃ ۔ (در مختار)۔ وفي الشامیۃ : قلت : الأقرب التخلص بأن الدبر والفرج الداخل من الجوف إذ لا حاجز بینہما وبینہ فہما في حکم ‘‘ ۔ (ردالمحتار:۳/۳۷۲)
(د): اگر بحالت صوم عورت کی شرم گاہ میں سیال یاجامد دوارکھی جائے، تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ ’’ وتکلم المشائخ في الإقطار في إقبال النساء ، منہم من قال علی الخلاف ، ومنہم من قال تفسد بلا خلاف ، وہو الصحیح ‘‘ ۔
(خلاصۃالفتاوی :۱/۲۵۳)
علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ الدبر والفرج الداخل من الجوف إذ لا حاجز بینہما وبینہ فہما في حکم ‘‘ ۔ (ردالمحتار:۳/۳۷۲) (فتاویٰ حقانیہ:۴/۱۶۸)
’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے :’’ وفي الإقطار في إقبال النساء یفسد بلا خلاف ، وہو الصحیح ۔ ہکذا في الظہیریۃ ‘‘ ۔ (۱/۲۰۴ ، البحر الرائق :۲/۴۳۸)
(ھ): بسا اوقات تحقیقِ مرض کے لیے بعض آلات عورت کے آگے کی راہ سے رحم تک پہنچائے جاتے ہیں، اگر ان آلات پر کوئی دوا وغیرہ نہ لگائی گئی ہو، توروزہ فاسد نہیں ہونا چاہیے، جیساکہ ’’البحرالرائق‘‘ کی اس عبارت سے مفہوم ہوتاہے: ’’ ولو شدّ الطعام بخیط وأرسلہ في حلقہ وطرف الخیط في یدہ لا یفسد الصوم ‘‘