من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہا ‘‘ ۔ (مجموعہ رسائل لکنوی:۳/۴۹۰) ’’ الإصرار علی المندوب یبلغہ إلی حد الکراہۃ ‘‘۔(السعایۃ: ۲/۲۶۵) ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے کہ:
’’ میری امت میں بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو کھانا کھلائے ، مگر اس کھلانے میں ریا اور شہرت مقصود نہ ہو، اور جو شخص کسی کو ریا اور شہرت کی غرض سے کھانا کھلائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس کے پیٹ میں ایک آگ رکھ دیں گے ، یہاں تک کہ وہ حساب وکتاب سے فارغ ہو‘‘۔ (کنز العمال:۹/۱۰۸، حدیث نمبر:۲۵۸۳۵)
ہم اس فقہی ضابطہ اورحدیث پاک پر ذرا غور کرلیں! کہ ہماری یہ دعوتیں اس فقہی ضابطہ اور حدیث میں وارد وعید کا مصداق بن رہی ہیں یانہیں؟ ظاہر تو یہی ہے کہ ہماری یہ دعوتیں شرعاً ممنوع ہیں،کیوں کہ حاجی صاحبان نے اس دعوت کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہے، اور اگر کوئی نہ کرنا چاہے تب بھی سماج ومعاشرہ کا دباؤ ، اور دوست واحباب کی جانب سے تقاضے، اسے اس پر مجبور کرتے ہیں۔یہاں تک دیکھا گیا کہ حاجی دس دس، بیس بیس پائیلی کا کھانا پکاکر اپنے دوست واحباب اوراعزہ واقارب کو کھلا رہاہے، اگر کسی کے پاس اس کی گنجائش نہیں تو وہ قرض لے کر اس کا انتظام واہتمام کررہا ہے، اور جن کے پاس اس کی گنجائش ہے وہ ریا وشہرت کے جذبہ سے سرشار ہوکر ایک دوسرے پرسبقت کی کوشش کررہے ہیں، بعض حاجی صاحبان تو اس دعوت کے لیے ایسے دعوت نامے بھی چھپوارہے ہیں ، جیسے وہ اپنے بچہ یا بچی کی شادی میں چھپواتے ہیں، اور بڑی لمبی چوڑی دعوتوں کا سلسلہ چل پڑا ہے، ہمارے شہر مالیگاؤں کی آبادی گنجان ہے ، گلیاں اور راستے تنگ ہیں، اور ان کی ہر دو جانب سے ہر صاحبِ مکان نے ان کے کچھ حصوں پر ناجائز قبضہ نہ صرف اپنا حق سمجھ رکھا ہے، بلکہ زندگی بھر اس کی بقا کے لیے کوشاں بھی ہے، جس کی وجہ سے راستے اور سڑکیں پہلے سے ہی تنگ ہیں ،