میں آگے ہیں ، اور دن بدن ترقی کرتے جارہے ہیں،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں بھی ترقی کے وہی اصول اپنانے ہوں گے، جو انہوں نے اختیار کر رکھے ہیں،لیکن یہ فہم وفکر قیاس مع الفارق اور خود فریبی ہے،کیوں کہ ہمارے اور غیروں کی ترقی کے اُصول جدا جدا ہیں۔ غیر چوںکہ احکامِ شرعیہ کے مکلف نہیں، اس لیے دنیوی ترقی کے لیے انہوں نے جوغیر شرعی اصول اپنارکھے ہیں،دنیا میں ان پر اس کا کوئی وبال نہیں ہوگا،اور وہ ترقی کی منزلیں طے کرتے چلے جائیں گے، جب کہ مسلمان شریعت کے مکلف ہیں، اگروہ اصولِ شرعیہ کو چھوڑ کر، غیر شرعی اصولوں کو اپناکر، ترقی کرنا چاہتے ہیں تو وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے ،اور اگرکچھ ترقی کر بھی لی ،تو وہ پائیدا ر نہیں ہوسکتی،کیوں کہ ہماری دنیوی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم دنیوی فنون کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی علوم بھی حاصل کریں، جس سے فکرِ آخرت پیدا ہوتی ہے۔
ا رشادِ خداوندی ہے:{یعلمون ظاہرًا من الحیوۃ الدنیا وہم عن الاٰخرۃ ہم غٰفلون}۔یہ تو دنیا کی ظاہر ی زندگی ہی کو جانتے ہیں ، اور آخرت کی طرف سے غافل ہیں۔(سورہ ٔ روم:۷)، آیت کا مفہوم صاف ہے کہ علم ظاہر حیات کے ساتھ ساتھ فکرِ آخرت ضروری ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:{بل ادّٰرک علمہم في الاٰخرۃ بل ہم في شک منہا بل ہم منہا عمون}۔بلکہ آخرت (کے بارے ) میں ان کا علم منتہی (پنکچر Punctur)ہوچکا ہے، بلکہ وہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، بلکہ اس سے اندھے ہورہے ہیں۔ (سورۂ نمل:۶۶)
لہٰذا آج کے ان بدلتے حالات میں ، اسلامی ماحول میں عصری تعلیم دینا نہ صرف