علامہ دریابادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ أي من کل ما یتقوی بہ في الحرب کائناً ما کان ‘‘(روح)’’ قوۃ ‘‘کا لفظ عام ہے ، عددی قوت ، سامانِ جنگ کی قوت، آلاتِ حرب کی قوت، سب کچھ اس کے اندر آگیا، یہاں تک کہ بڑھے ہوئے ناخن بھی۔
صاحب روح المعانی نے آیت کے تحت میں بندوق کا ذکر تصریح کے ساتھ کیا ہے ، اور اگر (وہ)آج ہوتے تو مشین گن، طیارہ اور ٹینک اور جیپ اور ایٹم بم وغیرہ سب کے نام لکھ جاتے۔ (تفسیر ماجدی)
خلاصۂ کلام یہ کہ علمِ دین کا حاصل کرنا فرضِ عین ہے ، اسی میں ہماری بقا وفلاح اور عزت وترقی مضمر ہے ، اور علومِ دنیویہ کا حاصل کرنا نہ صرف جائز ومباح، بلکہ فرضِ کفایہ ہے ۔
اورہمارے اس موقف کی تائید فخرِ گجرات ، مفتی ٔ بے مثال، حضرت مولانا قاری مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ کے ایک فتویٰ سے بھی ہوتی ہے، آپ اپنی شہرۂ آفاق کتاب’’فتاویٰ رحیمیہ‘‘ میں ایک استفتاء کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایسے اسکول قائم کرنا جس میں بقدر ضرورت گجراتی، انگریزی وغیرہ دنیوی علوم وفنون سکھلائے جائیں، اور صنعت وحرفت کے کلاس قائم کرنا، جس سے حلال روزی حاصل کرنے میں مدد مل سکے ، بلاشبہ جائز اور کارِخیر وموجبِ ثواب ہے ، لیکن دینی تعلیم کو اور دینی مدارس کی امداد کو مقدم سمجھا جائے۔‘‘ ؎
تم شوق سے کالج میں پھلو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
بس ایک سخن بندۂ ناچیز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
(مرحوم اکبرؔ الٰہ بادی)(فتاوی رحیمیہ:۳/۱۳۰، کتاب العلم والعلماء)