کروٹ کر وٹ مغفرت فرما کر، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، اور یہ ادارہ تا قیامت یوں ہی پھلتا پھولتا اورملتِ اسلامیہ کی رہنمائی کرتا باقی رہے۔ آمین !
اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے ایک اہم رکن روزہ ہے، روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک اکل وشرب اور جماع سے رُکے رہنے کا نام ہے، اکل وشرب کا لفظ معروف ہے، اور عام آدمی بھی اس کے متبادر مفہوم سے واقف ہے، کھانے اور پینے میں بنیادی طور پر حلق کے راستے سے قابلِ خورد ونوش اشیاء انسان کے معدے تک پہنچتی ہیں، فقہاء نے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اجتہاد سے کام لے کر اکل وشرب کے دائرے کو وسیع فرمایا ہے، اور کسی بھی چیز کے فطری منافذ کے ذریعے جوفِ معدہ یا جوفِ دماغ تک پہنچنے کو ناقضِ صوم قرار دیا ہے۔
اس پس منظر میں قدیم فقہاء نے ناک، کان، آنکھ اور آگے اور پیچھے کے راستے سے جسم میں داخل ہونے والی اشیاء سے روزہ ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کا ذکر کیا ہے، نیز ان میں سے بعض صورتوں میں فقہاء کے درمیان اختلافِ رائے بھی پایا جاتا ہے، فقہاء نے عام طور پر فطری منفذ اور غیر فطری منفذ کے درمیان فرق کیا ہے، اس بات کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے کہ داخل ہونے والی شئے کسی جوف میں جاکر قرار پذیر ہوتی ہے یانہیں ہوتی؟ نیز اس پر بھی بحث کی گئی ہے کہ مجوف اعضاء سے کون سے اعضاء مراد ہیں؟ اس موضوع کا تعلق ایک حد تک طب اور علم التشریح سے بھی ہے، مثلاً: دماغ کو قدیم اطباء جوف مانتے تھے، غالباً اسی پس منظر میں فقہاء نے جوفِ دماغ اور جوفِ بطن کا ذکر کیا ہے، لیکن موجودہ دور میں سائنس داں جوفِ دماغ کے قائل نہیں ہیں، یعنی وہ دماغ کے اندر کوئی ایسا مجوف حصہ نہیں مانتے، جس میں داخل ہوکر کوئی شئے ٹھہر جائے اور قرار پذیر ہو۔