جرم کا اقرار کیا ہے، اسی جرم کی شبہ کی بنا پر دوسرا شخص ماخوذ ہوگیا ہے، اس کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے، اس بات کا پورا اندیشہ ہے کہ وہ دوسرا شخص جو در اصل مجرم نہیں ہے، عدالت میں مجرم قرار دے دیا جائے، اور سزا یاب ہوجائے، ایسی صورت میں ڈاکٹر پر واجب ہے کہ عدالت میں جاکر مقدمہ میں گرفتار شخص کی برأت، اور اپنے زیر علاج مجرم مریض کے جرم میں ملوث ہونے کی شہادت دے۔
سوال: ۱۰- اگر کوئی شخص کسی متعدی مرض (مثلاً ایڈز، طاعون وغیرہ) میں مبتلا ہے، اور کسی ڈاکٹر کے زیر علاج ہے، مریض کا اِصرار ہے کہ ڈاکٹر اس کے اس مرض کی اطلاع کسی سے ، حتی کہ اس کے گھر والوں سے بھی نہ کرے، ورنہ وہ گھر اور سماج میں اَچھوت بن کر رہ جائے گا، کوئی بھی اس سے ملنا جلنا، اس کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا گوارا نہیں کرے گا، ایسی صورت میں اس مریض کے تئیں ڈاکٹر کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا وہ اس کے مرض کو راز میں رکھے، تاکہ مریض کو ضرر سے بچاسکے، یا اس کے گھر والوں اور دوسرے لوگوں کو اس کے مرض کی خبر کردے، تاکہ یہ مرض دوسروں کو لاحق نہ ہوجائے؟
جواب: ۱۰- اگر کوئی شخص کسی متعدی مرض میں مبتلا ہے، اور کسی ڈاکٹر کے زیر علاج ہے، اور مریض کا اِصرار ہے کہ ڈاکٹر اس کے اس مرض کی اطلاع کسی کو نہ دے، حتی کہ اس کے گھروالوں کو بھی نہ کرے، ورنہ وہ اَچھوت بن کر رہ جائے گا، اور ڈاکٹر کو ظن غالب ہے کہ عدم اطلاع کی صورت میں دیگر افراد کو ضرر پہنچے گا، تو ڈاکٹر اس کے گھروالوں اور دوسرے لوگوں کو اس کے اس مرض سے خبر کردے۔
(منقول از:جدید فقہی مباحث: ۱۰/۱۵۶- ۱۶۱،ترتیب: قاضی مجاہد الاسلام قاسیم صاحب رحمہ اللہ، ط: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی،طبی اخلاقیات؛ دائرے ضابطے فقہ اسلامی کی روشنی میں:ص/۲۶۱- ۲۷۱، ط: ایفا پبلی کیشنزدہلی)