ہونے کی وجہ سے مکان یا دکان کے مروجہ کرایہ میں کمی کرنا یہ بھی شرعاً جائز ہوگا، جیسے نقد اور ادھار بیع میں قیمتوں کا تفاوت جائز ودرست ہے، برخلاف اس کے کہ ڈپازٹ اور زرِ ضمانت کو قرض کے حکم میں قرار دے کر مالک اور کرایہ دار کو یہ تلقین کرنا کہ وہ اس قرض کی بنا پر مروجہ کرایہ میں کمی بیشی نہ کریں، محلِ غور ہے، کیوں کہ مشاہدہ یہ ہے کہ عام طور پر کرایہ داری کے معاملات میں یہی ہوتا ہے کہ جس قدر زرِ ضمانت زیادہ دیا جاتا ہے ، کرایہ کم رکھا جاتا ہے، اور زرِ ضمانت کے کم ہونے کی صورت میں کرایہ زیادہ متعین کیا جاتا ہے، اور ظاہر ہے معاملہ کی یہ صورت شبہ ربا سے خالی نہیں۔
سوال: ۵- اس ڈپازٹ کی رقم کی زکوۃ کس پر واجب ہے، کرایہ دار پر، یا مالک پر؟ یا کسی پر واجب نہیں؟
جواب:۵- ڈپازٹ کی اس رقم کو اگر قرض قرار دیا جاتا ہے، تومالک مکان ودکان پر اس کی زکوۃ واجب نہیں ، البتہ واپس ملنے کی صورت میں کرایہ دار پر اس کی زکوۃ واجب ہوگی، اورسنینِ ماضیہ کی زکوۃ بھی ادا کرنی ہوگی۔(۲۰)
اور اگر اسے رہن قرار دیا جاتا ہے ، تو اس کی زکوۃ نہ مالک مکان ودکان پر واجب اور نہ کرایہ دار پر، کیوں کہ شی ٔ مرہون کی زکوۃ نہ تو راہن پر لازم ہوتی ہے اور نہ مرتہن پر، اس لیے کہ راہن کی ملک ہے مگر قبضہ نہیں، اور مرتہن کا قبضہ ہے مگر ملک نہیں، حالانکہ وجوبِ زکوۃ کے لیے ملکِ تام کا ہونا ضروری ہے۔(۲۱)
اور اگر اسے پیشگی کرایہ قرار دیا جاتا ہے ، تواس کی زکوۃ مالک مکان ودکان پر واجب ہوگی، کیوں کہ وہ اس رقم کا مالک بھی ہے اورقابض بھی۔ (۲۲)