[ب]: اگر ڈپازٹ کی رقم بھاری مقدار میں ہو، تو ماہانہ کرایہ کی رقم بہت معمولی ہوتی ہے، اور بہر صورت جب بھی جائداد خالی ہوتی ہے، تو مالک ڈپازٹ کی پوری رقم واپس کرنے کا ضامن ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ:
(۱) اس طرح کا عقد شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
جواب: ۱- اگر ڈپازٹ کی رقم معمولی ہو تو ماہانہ کرایہ کی رقم زیادہ، اور اگر ڈپازٹ کی رقم بھاری مقدار میں ہوتو ماہانہ کرایہ کی رقم بہت معمولی۔ معاملہ کی یہ صورت شرعاً جائز نہیںہونی چاہیے ، کیوں کہ یہ ’’ کلّ قرض جرّ نفعاً فھو ربا ‘‘ کے تحت داخل ہے۔
سوال: ۲- ڈپازٹ کی رقم کی کیا حیثیت ہے؟ آیا وہ قیمت ہے یا رہن ہے یا امانت ہے؟
جواب: ۲- ڈپازٹ کی رقم رہن اور زرِ ضمانت ہے۔
سوال:۳- اس ڈپازٹ کی رقم کو مالک جائداد کے لیے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: ۳- ڈپازٹ کی اس رقم کو مالک ِ جائداد کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں۔
سوال: ۴- اگر یہ معاملہ جائز نہ ہو، تو کیا اس کو شرعی جواز کے دائرے میں لانے کی کوئی اور شکل ہے؟
جواب:۴- اس معاملہ کو شرعی جواز کے دائرہ میں لانے کے لیے یہ شکل اپنائی جاسکتی ہے کہ زرِ ضمانت کے طور پر دی جانے والی رقم کو پیشگی کرایہ قرار دیا جائے ، اور مالک مکان یا دکان اس سے اپنے کرایہ کی متعینہ رقم بتدریج منہاکرتا جائے ، اس طرح کرنے سے مالک مکان ودکان اس رقم کا مالک بن جائے گا، اس کا استعمال اس کے لیے درست ہوگا، اور اس کی زکوۃ بھی اس پر واجب ہوگی، نیز کرایہ کی رقم پیشگی وصول