دار سے دکان یا مکان خالی کرانا سخت مشکل ہے، اب ہوتا یہ ہے کہ اگر اس کرایہ دار کا انتقال ہوجائے، اور اس کی کئی اولادیں ہوں، تو ان اولادوں میں جو چالاک ہوتا ہے ، وہ مورِث کے مرنے کے بعد جوڑ توڑ کرکے مالک سے اپنے نام کرایہ داری کرالیتا ہے، اور اس جگہ پر قبضہ کرکے دیگر وارثین کو محروم کردیتا ہے، اور کرایہ داری کا معاملہ ہونے کی وجہ سے دیگر وارثین کوئی قانونی کارروائی بھی نہیں کرپاتے، اس سے بظاہر ان کی سخت حق تلفی ہوتی ہے، تو اس صورتِ حال میں سوال یہ ہے کہ:
(۱) ایسے طویل مدتی کرایہ داروں کو شرعاً کرایہ دار ہی کے درجہ میں مانا جائے گا، یا مالک کے درجہ میں؟
جواب: ۱- طویل مدتی کرایہ داروں کو شرعاً کرایہ دار ہی کے درجہ میں ماناجائے گا، مالک کے درجہ میں نہیں۔(۱۵)
سوال: ۲- اس طرح کی دکانوں اور مکانوں میں کرایہ دار کے انتقال کے بعد سب وارثین کا حق ہوگا یا نہیں؟
جواب:۲- اس طرح کی دکانوں اور مکانوں میں کرایہ دار کے انتقال کے بعد وارثین کا حق نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ دکان یا مکان اُس کرایہ دار کی ملکیت نہیں ہے، جب کہ اِرث کے جاری ہونے کے لیے مالِ موروث میں مورِث کی ملک کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔(۱۶)
سوال:۳- اگر ایک وارث قابض ہوکر دیگر وارثوں کو محروم کردے، اور اپنے نام کرایہ داری کرالے، تو اس کا یہ عمل شرعاً درست ہوگا یا نہیں؟
جواب:۳- اصل کرایہ دار کے انتقال کے بعد چوں کہ اُس کے ساتھ کرایہ داری