جواب:۴- جن غیر مسلم ومسلم ملکوں میں قانون ساز ادارے مخالف شرع قوانین بناتے ہیں، وہاں مسلمانوں کے لیے ان اداروں کا ممبر بننا درست ہونا چاہیے، اور ایسے ممبر شخص کو چاہیے کہ جمہوری حقوق سے استفادہ کرتے ہوئے، خلافِ شرع قانون سازی کے خلاف آواز اٹھاتا رہے۔ (۱۱)
رہی یہ بات کہ بسا اوقات پارٹی کی طرف سے وھیپ(Party whip) جاری ہونے پر، ایسا شخص پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے کا پابند ہوتا ہے، اور اپنی ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے کا اختیار نہیں رکھتا ، تو یہ خصوصی صورت ہوتی ہے، عمومی نہیں، اور اعتبار غلبہ کا ہوتا ہے شاذ ونادر کا نہیں(۱۲)،اور فقہ کا قاعدہ ہے : ’’ الضرر الأشد یزال بالضرر الأخف‘‘ کہ بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹا نقصان گوارا کرلیا جاتا ہے(۱۳) ، مذکورہ اداروں کا ممبر بننا یہ ضررِ اخف ہے، اورممبر نہ بن کر اُمت کو بڑے خطرات اور نقصانِ عظیم میں ڈالنایہ ضررِ اشد ہے، لہٰذا ضررِ اخف (ممبر بننے) کا ارتکاب کرکے ضررِ اشد(امت کو نقصان عظیم میں ڈالنے) سے بچا جائے گا۔
سوال:۵- جو لوگ قانون ساز اداروں کے رکن منتخب ہوں، انہیں دستور سے وفاداری کا حلف اُٹھانا پڑتا ہے، اور دستور میں بہت سی دفعات خلافِ شریعت بھی ہوتی ہیں، تو یہ عمل کہاں تک درست ہوگا؟
جواب:۵- جو لوگ قانون ساز اداروں کے رکن منتخب ہوتے ہیں ، جب انہیں حلف دلایا جاتا ہے، اس وقت حلف میں دستور کی تمام دفعات تفصیلاً مذکور نہیں ہوتیں، بلکہ اجمالی طور پر دستور سے وفاداری کاحلف دلایا جاتا ہے، تو مسلم ممبر کو چاہیے کہ وہ