سوال:۳- الیکشن میں اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۳- عام حالات میں اسلامی مزاج کے مطابق عہدہ واقتدار کی طلب غیر مستحسن ہے، کیوں کہ عہدہ کی طلب وحرص(۷) اور مسابقت ایک ایسی لذت ہے کہ اگر عہدہ چھن جائے، تو پھر حسرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔(۸)
لیکن اگر طلبِ عہدہ کے پیچھے کسی حظّ نفس کا دخل نہ ہو،بلکہ محض انسانیت کا درد، امانت ودیانت کے ساتھ مفاداتِ عامہ کے تحفظ کا جذبہ کارفرما ہو، نیز انسانوں کو صحیح فائدہ پہنچانا ، خلقِ خدا کو جبر وظلم سے نجات دلانا اور شرور وفتن سے بچانا مقصد ہو ، فساق وفجار کے منتخب ہونے سے معاشرہ میں بے دینی کی ترویج کا خطرہ ہو، اور اس عہدہ ومنصب کے لائق دیگر افراد موجود نہ ہوں، بلکہ تنہا وہی شخص اس عہدہ کے لیے موزوں ہو، تو اب اس پرمذکورہ تمام مقاصد کے حصول کے لیے الیکشن میں اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کرنا واجب ہے(۹)، البتہ وہ شخص از خود پرچۂ اُمیدواری داخل نہ کرے، بلکہ دوسرے لوگوں کے ہاتھوں پرچۂ نامزدگی داخل کریں، تاکہ وہ طلبِ عہدہ میں متہم نہ ہو۔(۱۰)
سوال:۴- غیر مسلم ملکوں میں اور بہت سے مسلم ملکوں میں بھی قانون ساز ادارے مخالفِ شریعت قوانین بھی بناتے ہیں، ایسی صورت میں ان اداروں کا ممبر بننا درست ہوگا یانہیں؟ خاص کر ان حالات میں کہ ہندوستان کے موجودہ قانون کے مطابق اگر کوئی پارٹی اپنے ممبروں کے لیے وہیپ جاری کردے، تو وہ پارٹی کی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے کا پابند ہوجاتا ہے، اور اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔