الناس کے لیے قابلِ عمل نہیں ہے، اوریہ ربوا وقمارکے دروازے کو کھولنے کا ذریعہ بن سکتا ہے،جب کہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ ممنوع کا ذریعہ بھی ممنوع ہوا کرتا ہے۔ (۳)
سوال:۲- کیا یہ جائز ہوگا کہ نوٹوں کی شکل میں قرض دیتے وقت یا مہر کے تقرر کے وقت، یا اُدھار فروختگی کے وقت طرفین واجب الادا نوٹ کی مالیت سونے یا چاندی میں طے کرلیں، اور بوقتِ ادائیگی اسی قدر سونے یا چاندی کی قیمت کے مساوی نوٹوں کی ادائیگی عمل میں آئے؟
جواب:۲- اس صورت کا حکم بھی وہی ہے جو پہلی صورت کا ہے ، البتہ اگر مہر وغیرہ کا تقرر عین سونا یا چاندی میں کیا جائے ، اور ادائیگی کے وقت وہی مقررہ مقدار یا روپیوں کی شکل میں اس کی جو قیمت بھی بنتی ہو،اس کو اداکیا جائے ، تو یہ بلا تامل جائز ودرست ہوگا۔ (طویل مدتی قرض اور موجودہ کرنسی:ص/ ۳۳۹- ۳۴۲، ط: ایفا)
..............................
والحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {أحل اللّٰہ البیع وحرم الربوا} ۔ (سورۃ البقرۃ : ۲۵۷)
ما في ’’ صحیح مسلم ‘‘ : عن جابر قال : لعن رسول اللّٰہ ﷺ آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال : ہم سواء ‘‘ ۔ (۲/۲۷ ، ط : بلال دیوبند)
ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : الربا شرعًا : فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضۃ ۔ (تنویر) ۔ (۷/۳۹۸ -۴۰۱ ، ط: بیروت)
ما في ’’ تبیین الحقائق ‘‘ : ہو فضل مال بلا عوض في معاوضۃ مال بمال ۔ (۴/۴۴۶ ، رمز الحقائق شرح کنز الدقائق :۲/۳۲ ، البحر الرائق :۶/۲۰۷ ، النہر الفائق:۳/۴۶۹ ، کتاب البیوع ، باب الربوا)
(۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطٰن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون} ۔ (سورۃ المائدۃ :۹۰)
ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : لأن القمار من القمر الذي یزداد تارۃ وینقص أخری ، وسمي القمار قمارًا ؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ،=