یہ اختلاف پیدا ہو کہ جس وقت آپ نے یہ روپئے مجھے بطور قرض دیئے ، اس وقت سونے یا چاندی کی یہ قیمت تھی، جس کی وجہ سے مجھے اس قدر سونے چاندی کی قیمت کی ادائیگی لازم ہے ، اور مستقرض سونے چاندی کی قیمت اس سے کم بتلائے ، اور آپس میں تنازعہ کھڑاہو۔
نیز دیون کو سونے چاندی کی قیمتوں سے وابستہ کرنا بابِ ربوا کو کھولنے کا ذریعہ ہے۔ وہ اس طرح کہ مثلاًآج بتاریخ ۸؍۱؍۱۴۳۱ھ۔ کو زید ’’۱۷۲۰۰‘‘ روپئے بکر کو ایک سال کی مدتِ ادائیگی پر بطور قرض دیدے، جس کی مالیت ایک تولہ سونے کی بقدر ہے، اب ممکن ہے کہ جب ایک سال پورا ہوجائے ، تو سونے کے دام بڑھ کر ’’۲۰۰۰۰‘‘روپئے فی تولہ ہوجائے ، اس صورت میں بکر پر ’’۱۷۲۰۰‘‘ روپئے کی ادائیگی لازم ہونے کی بجائے ’’۲۰۰۰۰‘‘ روپئے کی ادائیگی لازم ہوگی، یعنی قرض پر حاصل کردہ ’’۱۷۲۰۰‘‘ روپئے پر ’’۲۸۰۰‘‘ زائد دینے ہوں گے،اور یہ سود ہے(۱)، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سال پورا ہونے پر سونے کے دام گھٹ کر ’’۱۶۰۰۰‘‘ فی تولہ ہوجائے ، اور اس صورت میں بکرپر ’’۱۷۲۰۰‘‘ کی ادائیگی لازم ہونے کی بجائے ’’۱۶۰۰۰‘‘ کی ادائیگی لازم ہو، یعنی قرض پر حاصل کردہ ’’۱۷۲۰۰‘‘ میں’’۱۲۰۰‘‘ کم دینے ہوں گے۔
سونے چاندی کی قیمت میں اس کمی وبیشی کے احتمال کی وجہ سے ، قرض کی ادائیگی میں روپیوں کی مقدار موہوم ہے ،یعنی ہوسکتا ہے کہ جو مقدار قرض میں لی اس سے زیادہ ادا کرنی پڑے ، اور یہ بھی امکان ہے کہ جو مقدار قرض میں لی اس سے کم دینی پڑے ، اور یہ قمار ہے۔(۲)
خلاصۂ کلام یہ کہ دیون کو سونے چاندی کی قیمتوں کے اشاریہ سے وابستہ کرناعامۃ