کی حیثیت دی جائے گی(۵)، نیز اس صورت میں اس کا فیصلۂ فرقت بھی معتبر ہوگا، بشرطیکہ وہ شرعی بنیادوں پر مبنی ہو، کیوں کہ ایسا قاضی وحاکم جس کو مسلم حکومت عہدہ ٔ قضاء پر فائز کرے، اور وہ غیر شرعی فیصلہ کرے تو اس کا فیصلہ نافذ ومعتبر نہیں ہوتا، تو جس قاضی وحاکم کو غیر مسلم حکومت وعدالت فسخ وتفریق کا کام سونپے اور وہ غیر شرعی بنیادوں پر فیصلہ کرے، تو اس کا فیصلہ بھی بدرجۂ اولیٰ نافذ ومعتبر نہیں ہوگا، جیسا کہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ جب مخالفِ اجماع کسی شی ٔ کا فیصلہ کیا جائے تو وہ نافذ نہیں ہوتا ہے۔(۶)
اجماع دلائلِ شرعیہ میں سے ایک دلیل ہے ، اور اس کے خلاف فیصلہ نافذ ومعتبر نہیں ہوتا، اور اس عدم اعتبار وعدم نفاذ کی علت ’’اس فیصلہ کا غیر شرعی اصولوں پر مبنی ہونا ہے‘‘، تو ہر ایسا فیصلہ جو غیر شرعی بنیادوں پر مبنی ہو وہ بھی نافذ ومعتبر نہیں ہوگا،نیز فقہ کا یہ قاعدہ ہے: کہ جو چیز فاسد پر مبنی ہو وہ خود بھی فاسد ہوتی ہے ، اور جس چیز کی اساس وبنیاد صحیح ہو وہ خود بھی صحیح ہوتی ہے۔(۷)
..............................
والحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘: {ألم تر إلی الذین یزعمون أنہم آمنوا بما أنزل إلیک وما أنزل من قبلک یریدون أن یتحاکموا إلی الطاغوت وقد أمروا أن یکفروا بہ ، ویرید الشیطٰن أن یضلّہم ضلٰلاً بعیداً}۔۔۔۔کیا آپ نے ان لوگوں پر نظر نہیں کی جو دعویٰ رکھتے ہیں کہ وہ اس (کتاب) پر ایمان لے آئے ہیں ، جو آپ پر نازل کی گئی ہے، اور آپ سے ماقبل نازل ہوچکی ہے، (لیکن) چاہتے یہ ہیں کہ اپنے مقدمہ طاغوت کے پاس لے جائیں(بجائے اس کے کہ اُسے شریعت کی عدالت میں لائیں’’ماجدی‘‘)، حالانکہ انہیں حکم مل چکا ہے کہ اس کے مقابلہ میں کفر اختیار کریں، اور شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ انہیں بھٹکاکر بہت دور دراز لے جائے۔ (سورۃ النساء:۶۰)
وقولہ تعالیٰ أیضاً: {فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکّموک فیما شجر بینہم}۔۔۔۔سو آپ کے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہونگے جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہو، آپ کو حکم نہ بنالیں۔(سورۃ النساء :۶۵)=