صورت بھی تحکیم کی ہے، جو شرعاً درست نہیں ہے(۲)، کیوں کہ صورتِ اولیٰ میں جب زوجین کی آپسی رضامندی کے باوجود تحکیمِ غیر مسلم جج درست نہیں ، تو اس صورت میں جس میں جبراً شوہر سے دستخط لیجاتی ہے(۳) ، بدرجۂ اولیٰ تحکیمِ غیر مسلم درست نہیں۔
سوال:۳- تیسری صورت یہ ہے کہ عورت کی درخواست کے بعد شوہر عدالت میں نہیں آیا، یا آیا تو مگر دستخط وتفویض پر تیار نہیں ہوا، اور عدالت نے حالات کا جائزہ لے کر تفریق کا فیصلہ کردیا، تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ جب کہ اس صورت میں جو فیصلہ ہوا ہے، اس کی بابت شوہر کی طرف سے کوئی آمادگی نہیں ہے۔
جواب:۳- عورت نے عدالت میں درخواست دی ، مگر شوہر عدالت میں نہیں آیا، یا آیا مگر دستخط وتفویض پر تیار نہیں ہوا، اور عدالت نے حالات کا جائزہ لیکر تفریق کا فیصلہ کردیا، تو شرعاً فرقت واقع نہیں ہوگی، کیوں کہ شرعاً طلاق کا حق مرد حاصل ہے نہ کہ عورت کو، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’ طلاق کا مالک وہ شخص ہے جس نے ساق یعنی پنڈلی کو لازم پکڑا‘‘۔(۴)
سوال:۴- کیا مسئلے میں اس سے بھی کچھ فرق پڑسکتا ہے کہ جج اگرچہ غیر مسلم حکومت وغیر مسلم عدالت کا ہے، مگر مسلمان ہے، وہ اپنے عمومی فرائضِ منصبی کے تحت اس قسم کا کام بھی کرتا ہے، تو کیا اس کو ’’مسلم حاکم وقاضی‘‘ کی حیثیت دی جاسکتی ہے؟ اور اس حیثیت سے اس کے فیصلۂ فرقت کا اعتبار کیا جاسکتا ہے؟
جواب:۴ - اگر غیر مسلم حکومت وغیر مسلم عدالت نے کسی مسلمان کو جج بنایا ، اور اسے عمومی فرائضِ منصبی کے تحت فسخ وتفریق کا کام بھی سونپا ہو ، تو اس کو مسلم حاکم وقاضی