بئرًا بأحدہما أي عین مالیۃ أو منفعۃ مباحۃ مطلقًا فیشمل نحو بیع کتاب بکتاب أو بممرّ في دارٍ أو بیع نحو ممرّ في دار بکتاب أو بممر في دار أخری ‘‘۔’’بیع ایک مالیت رکھنے والی چیز کا تبادلہ ہے یا مطلق مباح منفعت کا تبادلہ ہے جس کی اباحت کسی ایک حال کے ساتھ مخصوص نہ ہو، (دوسری مالیت رکھنے والی چیز یامطلق مباح منفعت) سے جیسے گھر کی گزرگاہ یا زمین کا وہ حصہ جس میں کنواں کھودا جائے، ان میں سے ایک کا دوسرے سے تبادلہ، یعنی ایک طرف عین مالیت اور دوسری طرف منفعت مباحہ، … لہٰذا یہ تعریف ان تمام صورتوں کوشامل ہوگی، کتاب کا کتاب سے تبادلہ، کتاب کا حق مرور سے تبادلہ، حق مرور کا کتاب سے تبادلہ ، ایک گھر کے حق مرور کا دوسرے گھر کے حق مرور سے تبادلہ‘‘۔
(شرح منتہی الارادات:۲/۱۴۰، الموسوعۃ الفقہیۃ :۹/۶)
فقہائے مالکیہ نے بیع کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی ہے:’’ عقد معاوضۃ علی غیر منافع ولا متعۃ لذۃ ‘‘۔’’بیع ایسا عقد معاوضہ ہے جو منافع پر نہ کیا جائے اور نہ ہی لذت حاصل کرنے کے لیے کیا جائے‘‘۔
(مواہب الجلیل للحطاب: ۴/۲۲۵، الموسوعۃ الفقہیۃ :۹/۵)
ان تعریفات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شافعیہ، حنابلہ اور مالکیہ نے بیع کی تعریف کو عام کرکے منافع کو بھی اس میں شامل کیا ہے، اس لیے اُن کے نزدیک اکثر حقوقِ مجردہ کی بیع جائز ہے۔