مالک ِ زمین کی اجازت سے بنادیئے تھے، وہ بھی فسخ ہوجاتے ہیں، … اس لیے زمینوں کے لین دین کی یہ صورت - حقیقۃً بیع نہیں، بلکہ معاہدۂ بیع ہے۔(۱)
ہاں! اگر مالک ِ زمین خریدار اول سے قطعی بیع کرلے، اور اس سے قیمت کا ایک حصہ نقد وصول کرلے، اور بقیہ قیمت کی ادائیگی کے لیے متعاقدین باہم رضامندی سے ایک مدت طے کرلیں، اور مدت کے پوری ہونے پر خریدار پوری قیمت ادا نہ کرسکنے کی صورت میں بائع یعنی فروخت کنندہ اپنے لیے فسخِ بیع کا اختیار رکھے، تو اسے بیع بخیار النقد کہا جاتا ہے(۲)، مگر اس صورت میں بھی جب تک خریدار مقررہ مدت پر پوری قیمت ادا نہیں کرے گا، مبیع یعنی زمین اصل مالک ہی کی ملک میں رہے گی، خریدار اس کا مالک نہیں ہوگا، … معلوم ہوا - معاہدۂ بیع - کی صورت ہو یا -بیع بخیار النقد- دونوں صورتوں میں جب تک معاملہ غیر یقینی صورتِ حال سے نہیں نکلے گا، اس وقت تک خریدار زمین کا مالک نہیں بنے گا(۳)، اور نہ ہی اس کے لیے اس زمین کا آگے فروخت کرنا جائز ہوگا، کیوں کہ آپ ا کا ارشاد ہے: ’’ لا تبع ما لیس عندک‘‘۔جو چیز اپنی ملک میں نہیں اُسے فروخت نہ کر۔(۴)
اب رہی یہ بات کہ خود مالک ِ زمین خریدار کو اپنی اس زمین کے پلاٹ بنابنا کر آگے فروخت کرنے کی اجازت دیتا ہے ، تاکہ خریدار کو پیمنٹ کی ادائیگی میں سہولت ہو، تو خریدار اول اس زمین کو آگے کس حیثیت سے فروخت کررہا ہے؟ … مالک بن کر؟ … دلال بن کر؟… یا وکیل بن کر؟… ظاہر ہے … جب وہ خود، فی الحال اس زمین کا مالک نہیں، اور مالک ِ زمین کے ساتھ اس کا اپنا معاہدہ غیر یقینی صورتِ حال